امریکا نے عمران خان سے متعلق سوال پر کسی قسم کا رد عمل دینے سے انکار کر دیا
امریکا نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان سے متعلق سوال پرکسی قسم کا ردعمل دینے سے انکار کر دیا۔
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ٹیمی بروس سے میڈیا بریفنگ کے دوران سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان سے متعلق سوال کیا گیا، تاہم انہوں نے سوال پر ردعمل دینے سے انکار کر دیا۔
ٹیمی بروس نے کہا کہ کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات پربات نہیں کی جائے گی، امریکا کو اپنے پڑوسیوں کی پروا ہے۔
پریس بریفنگ کے دوران صحافی نے سوال کیا کہ پاکستان میں مقبول سیاسی رہنما عمران خان گزشتہ چند سال سے جیل میں ہیں، اس پر ترجمان نے کہا کہ کیا آپ بھی اپنا تعارف کروا سکتے ہیں؟ ہم پہلی بار مل رہے ہیں، اس پر صحافی نے کہا کہ میرا نام جلیل آفریدی ہے اور میرا تعلق فرنٹیئر پوسٹ سے ہے۔
ٹیمی بروس نے کہا آپ سے مل کر خوشی ہوئی، اس کے بعد صحافی نے سوال دہرایا کہ پاکستان میں مقبول رہنما عمران خان گزشتہ 2 سال سے جیل میں قید ہیں، اور اس عرصے میں پاکستان میں ہر چیز، خواہ وہ جمہوریت ہو، خواتین کے حقوق ہوں، سب کچھ بکھر چکا ہے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ کہ صدر ٹرمپ انتخابات سے قبل پاکستان کے بارے میں بہت کچھ کہہ رہے تھے اور امریکا میں ان کے ہزاروں نئے ووٹرز اور لاکھوں پاکستانی ان سے توقع کر رہے ہیں کہ وہ اس ملک کے حوالے سے کسی قسم کا اقدام کریں گے، کیا آپ کے ذہن میں کچھ ہے یا آپ نے صدر کی بات سنی ہے؟
ٹیمی بروس نے جواب دیا کہ ’جو میں آپ کو بتا سکتی ہوں، جیسا کہ میں نے ابھی ترکیہ کے بارے میں سنا، وہ یہ ہے کہ میں کسی دوسرے ملک کے اندرونی فریم ورک پر تبصرہ نہیں کروں گی، میں جانتی ہوں، صدر ٹرمپ کو عہدہ سنبھالے صرف 8 ہفتے ہوئے ہیں، اور دنیا میں ہمارے ارد گرد بہت کچھ ہو رہا ہے۔‘
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ ’میں سمجھتی ہوں کہ صدر ٹرمپ اور سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے واضح کیا ہے کہ ہمیں اس چیز کی پروا ہے کہ ہمارے پروس میں کیا ہو رہا ہے، اس بات کی پروا ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، اور اس کا ثبوت ہمارے اقدامات سے ملتا ہے، آپ کا بہت شکریہ۔‘
غزہ پر اسرائیلی فورسز کی وحشیانہ بمباری کے حوالے سے سوال کے جواب میں ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ ’جی ہاں، یہ خوفناک ہے، یہ 21 ویں صدی ہے، اور دہشت گرد گروہوں، ایران کے ڈیتھ اسکواڈز، ایسے ادارے جن کی مصائب میں سرمایہ کاری ہے، (لوگوں بالخصوص غزہ والوں) کو توپ کے چارے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، جس کی دنیا دہائیوں سے مذمت کرتی رہی ہے، اور آخر کار ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔‘
ٹیمی بروس نے کہا کہ ’ہم نے اس کے خاتمے کی ضرورت کے فریم ورک کے اندر کافی بات چیت کی ہے، اور شروع میں صدر ٹرمپ اور سیکریٹری خارجہ روبیو نے ایک نئے طریقے کا مطالبہ کیا کہ ہم اس کو کس طرح ختم کرسکتے ہیں، حماس کے پاس جنگ بندی کے دوسرے مرحلے تک جاری رہنے کے لیے ایک پل کی پیشکش تھی، جسے انہوں نے مسترد کر دیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حماس کی جانب سے یہ متحرک چیز نہیں تھی اور یہ حماس کے مزید فیصلوں کا خوفناک نتیجہ ہے جو مصائب کو جاری رکھے ہوئے ہیں ، لیکن یہ سب سے بڑا نتیجہ رہا ہے۔
صحافی نے سوال کیا کہ وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ وہ امریکا اور یوکرین کے درمیان معدنیات کے معاہدے سے آگے بڑھ گیا ہے، کیا اس پر پہلے ہی اتفاق ہو چکا ہے اور اس پر دستخط ہو چکے ہیں؟
ٹیمی بروس نے کہا کہ اس وقت ہم بہت ساری چیزوں سے نمٹ رہے ہیں، یہ ایسی چیز نہیں ہے جس پر اس وقت بات کی جا رہی ہے، لہٰذا میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ مزاج کیا ہے، لیکن میں صرف ان کا حوالہ دوں گی کہ انہوں نے اس پر کس طرح تبصرہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ آج صدر ٹرمپ نے یوکرینی ہم منصب ولادیمیر زیلنسکی سے بات کی، جیسا کہ صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ ایک بہت اچھی ٹیلی فون کال تھی، (زیادہ تر بحث ہوئی)، صدر پیوٹن کے ساتھ کل کی کال کی بنیاد پر تاکہ روس اور یوکرین دونوں کو ان کی درخواستوں اور ضروریات کے مطابق ہم آہنگ کیا جا سکے۔
امریکا کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے گزشتہ ہفتے پیوٹن سے ملاقات کی تھی، گزشتہ ہفتے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے وزیر خارجہ لاوروف سے بات کی تھی، وزیر خارجہ روبیو اور قومی سلامتی کے مشیر والٹز نے جدہ میں یوکرین کے وفد سے ملاقات کی، آنے والے دنوں میں سعودی عرب میں مذاکرات جاری رہیں گے۔
صدر زیلنسکی نے امریکا کی حمایت پر صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا، خاص طور پر جیولین میزائل جو صدر ٹرمپ نے سب سے پہلے فراہم کیے تھے، اور امن کے لیے ان کی کوششوں کا شکریہ ادا کیا۔
دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یوکرین اور امریکا جنگ کے حقیقی خاتمے کے لیے مل کر کام کرتے رہیں گے اور صدر ٹرمپ کی قیادت میں دیرپا امن حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ مجھے واضح کرنے دیں کہ امریکی حکومت اپنے قوانین کو نافذ کرے گی، ہم ملک سے غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کریں گے، اور ہم توقع کرتے ہیں کہ متعلقہ ممالک امریکا میں غیر قانونی طور پر موجود اپنے شہریوں کو قبول کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ روبیو نے گزشتہ روز واضح کیا تھا کہ وینزویلا امریکا سے واپس آنے والے اپنے شہریوں کو قبول کرنے کا پابند ہے، یہ بحث یا مذاکرات کا مسئلہ نہیں، اور نہ ہی یہ کسی انعام کا مستحق ہے، جب تک مدورو کی حکومت مزید بہانوں یا تاخیر کے بغیر ملک بدری کی پروازوں کے مسلسل بہاؤ کو قبول نہیں کرتی، امریکا نئی، سخت اور بڑھتی ہوئی پابندیاں عائد کرے گا۔
جیسا کہ صدر ٹرمپ نے اپنے اعلان میں واضح کیا ہے کہ ٹی ڈی اے قریبی طور پر مدورو کی حکومت کے ساتھ منسلک ہے اور درحقیقت اس نے دراندازی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مدورو کے حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے منشیات فروشوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ مدورو کی حکومت کو امریکہ کی طرف سے ملک بدر کیے گئے وینیز ویلا کے تمام تارکین وطن کو واپس قبول کرنا ہوگا، خاص طور پر قاتلوں، ریپ کرنے والوں، مجرموں، انسانی اسمگلروں اور امریکا میں غیر قانونی طور پر موجود دیگر مجرموں کو، ایسا کرنے میں ناکامی یا تاخیر پر نئی اور زیادہ سخت پابندیاں عائد کریں گے۔