ٹیکسوں میں اضافے سے پیکیجڈ دودھ اور ڈیری مصنوعات کی کھپت محدود
پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن (پی ڈی اے) نے ٹیکسوں کے نظام کو معقول بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ زیادہ ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں پیکیجڈ دودھ اور ڈیری مصنوعات کی کھپت محدود ہو رہی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق وزارت صنعت و پیداوار کو لکھے گئے خط میں ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ پاکستان دودھ پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے، اس کے باوجود، زیادہ ٹیکس صنعت کو نقصان پہنچا رہا ہے، اور کم معیار کے دودھ کے پھیلاؤ کا سبب بن رہا ہے۔
پی ڈی اے کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں پیک شدہ دودھ پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد ہے۔
ایک حالیہ ملاقات میں فوجی فوڈز کے منیجنگ ڈائریکٹر اور چیئرمین پی ڈی اے عثمان ظہیر کی سربراہی میں وفد نے وزیراعظم کے معاون خصوصی ہارون اختر خان سے ملاقات کی اور انہیں پیکیجڈ ڈیری انڈسٹری کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا۔
وفد میں فریز لینڈ کیمپینا اینگرو پاک کے منیجنگ ڈائریکٹر اور وائس چیئرمین پی ڈی اے کاشان حسن، سی ای او پی ڈی اے ڈاکٹر شہزاد امین، ہیڈ آف کارپوریٹ افیئرز ٹیٹرا پاک نور آفتاب اور ڈاکٹر محمد ناصر بھی شامل تھے۔
پی ڈی اے کا کہنا تھا کہ دودھ بنیادی غذا کا حصہ ہے، اور صرف زیادہ قیمت کی وجہ سے عوام کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پی ڈی اے کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر شہزاد امین نے بتایا کہ صارفین کے لیے دودھ کے صرف 2 ذرائع ہیں، پیک شدہ اور تازہ۔ تاہم، اوپن مارکیٹ کی سطح پر معیارات کا مناسب نفاذ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی اے نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پیک شدہ دودھ پر ٹیکس کی پالیسی پر نظر ثانی کرے، جی ایس ٹی میں کمی کی وکالت کرتے ہوئے ڈیری سیکٹر کی مدد کرتے ہوئے صارفین کو سستے داموں دودھ کی مستقل فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ ہم کہتے ہیں کہ یہ کوئی عام صنعت نہیں ہے اور دودھ کی مصنوعات جیسے پنیر، گھی، مکھن، کریم، لسی وغیرہ لگژری اشیا نہیں ہیں۔
یہ ٹیکس رواں مالی سال میں عائد کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے پیکیجڈ دودھ کی فروخت میں 20 فیصد سے زائد کی کمی واقع ہوئی ہے۔
ڈاکٹر شہزاد نے انکشاف کیا کہ گزشتہ سال دودھ کی اوسط پروسیسنگ تقریباً 1000 ملین لیٹر تھی، لیکن ٹیکس کے نفاذ کے بعد یہ حجم کم ہو کر تقریباً 800 ملین لیٹر یومیہ رہ گیا ہے۔
صنعت کا کہنا ہے کہ زیادہ ٹیکسوں کے علاوہ بجلی کی بڑھتی ہوئی لاگت، پلانٹس اور مشینری پر درآمدی ٹیرف نے کاروباری اخراجات میں اضافہ کیا ہے۔