امریکا نے سراج حقانی سمیت 3 طالبان رہنماؤں کے سروں کی قیمت واپس لے لی
امریکا نے سراج الدین حقانی سمیت طالبان قیادت کے سینئر رہنماؤں کے سروں کی مقرر کی گئی قیمت واپس لے لی ہے۔
عرب نیوز میں شائع خبر کے مطابق سراج الدین حقانی نے جنوری 2008 میں کابل کے سرینا ہوٹل پر حملے کی منصوبہ بندی کا اعتراف کیا تھا، جس میں امریکی شہری تھور ڈیوڈ ہسلا سمیت 6 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اب سراج الدین حقانی کی تصویر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی انعامات برائے انصاف کی ویب سائٹ پر نظر نہیں آتی، تاہم اتوار کے روز بھی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کی ویب سائٹ پر اب بھی ان کے لیے ’مطلوب‘ کا پوسٹر موجود ہے۔
افغان وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت نے سراج الدین حقانی، عبدالعزیز حقانی اور یحییٰ حقانی پر عائد انعامات واپس لے لیے ہیں۔
عبدالمتین قانی نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ’ان تینوں افراد میں سے 2 سگے بھائی اور ایک ان کے چچا زاد بھائی ہیں۔
حقانی نیٹ ورک 2001 میں افغانستان پر امریکی قیادت میں حملے کے بعد طالبان کے مہلک ترین ہتھیاروں میں سے ایک بن گیا۔
اس گروپ نے سڑک کنارے بم، خودکش بم دھماکوں اور دیگر حملوں کا استعمال کیا، جن میں بھارتی اور امریکی سفارتخانوں، افغان صدر اور دیگر اہم اہداف کو نشانہ بنایا گیا، ماضی میں گروپ کا تعلق اغوا اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں سے بھی رہا۔
وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار ذاکر جلالی نے کہا کہ طالبان کی جانب سے امریکی قیدی جارج گلیزمین کی رہائی اور طالبان قیادت پر انعامات کے خاتمے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریق جنگ کے دور کے اثرات سے آگے بڑھ رہے ہیں اور دوطرفہ تعلقات میں پیش رفت کی راہ ہموار کرنے کے لیے تعمیری اقدامات کر رہے ہیں۔
ذاکر جلالی نے کہا کہ افغانستان اور امریکا کے تعلقات میں حالیہ پیش رفت دونوں حکومتوں کے درمیان عملی اور حقیقت پسندانہ روابط کی اچھی مثال ہے۔
ایک اور عہدیدار شفیع اعظم نے اس پیشرفت کو 2025 میں معمول پر لانے کے آغاز کے طور پر سراہا، اور طالبان کے اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ناروے میں افغان سفارت خانے کا کنٹرول ان کے پاس ہے۔
اگست 2021 میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے چین اپنے ایک سفارت کار کو قبول کرنے والا سب سے نمایاں ملک رہا ہے۔
دیگر ممالک نے طالبان کے حقیقی نمائندوں کو قبول کیا، جیسے قطر، جو امریکا اور طالبان کے درمیان ایک اہم ثالث رہا ہے، امریکی سفیروں نے بھی طالبان سے ملاقات کی ہے۔
طالبان کی حکمرانی، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں پر پابندی نے بڑے پیمانے پر مذمت وصول کی ہے، اور ان کی بین الاقوامی تنہائی کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
سراج الدین حقانی اس سے قبل بھی طالبان کے فیصلہ سازی کے عمل، آمریت اور افغان عوام کی علیحدگی کے خلاف بول چکے ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر ان کی بحالی طالبان رہنما ہیبت اللہ اخوندزادہ کی حیثیت کے برعکس ہے، جنہیں خواتین پر ظلم و ستم کے الزام میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے گرفتاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔