بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر پنجگور میں تیسرے دن بھی ہڑتال
بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی ) نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے احتجاجی مظاہرین کے خلاف پنجگور میں پولیس نے ایکشن لیا ہے، جبکہ شہر میں ہڑتال تیسرے دن بھی جاری رہی۔
بلوچستان کے ضلع پنجگور میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا، جہاں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر شٹر ڈاؤن ہڑتال تیسرے دن بھی جاری رہی۔
بی وائی سی کی قیادت کی حالیہ گرفتاریوں اور کوئٹہ میں ان کے دھرنے پر کریک ڈاؤن کے خلاف احتجاجی کال پر بلوچستان کے مختلف شہروں میں ویک اینڈ پر شٹر ڈاؤن ہڑتالیں دیکھی گئیں۔
بی وائی سی کی چیف آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور 16 دیگر کارکنوں کو ہفتے کے روز کوئٹہ کے سریاب روڈ پر ان کے احتجاجی کیمپ سے گرفتار کیا گیا، اس سے ایک دن قبل انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس کی کارروائی کے نتیجے میں تین مظاہرین ہلاک ہو گئے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ’ ایکس ’ پر ایک پوسٹ میں کہا کہ پنجگور میں احتجاج ’ فائرنگ اور ریاستی تشدد کے درمیان’ تیسرے دن میں داخل ہو گیا ہے، مظاہرین ’ریاستی جبر، جبری گمشدگیوں اور پرامن مظاہرین کو نشانہ بنانے‘ کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
بی وائی سی کے مطابق قلات میں بھی احتجاج کیا گیا جہاں مظاہرین نے ’ جبری گمشدگیوں، پولیس کے مبینہ جبر ’ اور بلوچستان بھر میں پرامن مظاہروں کے پرتشدد جبر کی مذمت میں نعرے لگائے۔
بی وائی سی نے مزید کہا کہ قلات میں مظاہرہ مزاحمت کی بڑھتی ہوئی لہر کا حصہ تھا، کیونکہ لوگ بڑھتے ہوئے کریک ڈاؤن کے باوجود ریاستی جبر کو نہیں مانتے اور انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے الزام عائد کیا کہ کہ ’ سیکیورٹی فورسز نے ایک بار پھر فائرنگ کی’، جس سے کئی مظاہرین زخمی ہوئے۔ بی وائی سی نے زخمی افراد کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ’ سیکیورٹی فورسز کی پرامن مظاہرین پر کریک ڈاؤن جاری رکھنے سے کئی افراد شدید زخمی ہوئے ہیں، ریاست کا جبر بڑھ رہا ہے، اس ظلم کے خلاف ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔
آج ایکس پر ایک پوسٹ میں، ماہ رنگ کی بہن نادیہ بلوچ نے کہا کہ صرف اسے بی وائی سی رہنما سے ملنے کی اجازت دی گئی جبکہ اس کی چھوٹی بہن اقرا کو نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ تین گھنٹے تک درخوست کرنے اور جیل کے عملے کو دھمکی دینے کے بعد کہ اگر مجھے اپنی بہن ماہ رنگ بلوچ سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی تو میں بھوک ہڑتال پر بیٹھ جاؤں گی، آخر کار مجھے اس سے ملنے کی اجازت دی گئی لیکن صرف چند منٹوں کے لیے۔
نادیہ نے مزید کہا کہ ’جب میں ڈاکٹر ماہ رنگ سے ملی تو وہ بلند حوصلہ نظر آئیں، مسکرائیں اور یہ پیغام دیا: ’میری قوم سے کہنا کہ مضبوط رہے، اور انصاف کے لیے اپنے پرامن احتجاج اور مارچ جاری رکھیں۔‘
ماہ رنگ کی بہن اقرا بلوچ اور کزن اسماء بلوچ نے کل دعویٰ کیا تھا کہ انہیں کوئٹہ ڈسٹرکٹ جیل میں ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی، جہاں انہیں پبلک آرڈر مینٹیننس (ایم پی او) کی دفعات کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے کیونکہ ان کی گرفتاری باضابطہ طور پر ظاہر نہیں کی گئی ہے۔
آج کی ملاقات کے بارے میں ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے نادیہ نے کہا کہ ہمارا خاندان کافی دیر تک انتظار کرتا رہا۔ ’آخر کار انہوں نے مجھے اندر جانے کی اجازت دی، لیکن ایک بار پھر، ماہ رنگ سے ملنے سے پہلے مجھے مزید تین گھنٹے انتظار کرایا گیا۔ ’
انہوں نے بتایا کہ ماہ رنگ کے وکیل کو بھی گزشتہ دو دنوں سے ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
نادیہ نے مزید کہا کہ ’ تین گھنٹے بعد جب میں ماہ رنگ سے ملی تو میں جذباتی ہو گئی اور میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، تاہم ماہ رنگ مسکرائی اور مجھے حوصلہ بلند رکھنے اور اپنی طرح بننے کو کہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کی بہن جیل کی مشکلات کے باوجود پرعزم اور ثابت قدم نظر آئیں اور ان کے چہرے پر مایوسی کا نام و نشان نہیں تھا، انہوں نے مزید کہا کہ ہماری ملاقات 2 گھنٹے جاری رہی۔
نادیہ نے بتایا کہ ماہ رنگ نے ان سے لاشوں اور ان کے لواحقین کے بارے میں پوچھا اور خدشہ ظاہر کیا کہ انہیں بھی بے نام افراد کی طرح چھوڑ کر دفن کر دیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماہ رنگ کو نہ تو یہ علم تھا کہ انہیں کس کیس میں گرفتار کر کے کوئٹہ جیل منتقل کیا گیا ہے اور نہ ہی انہیں کسی کیس میں نامزد ہونے کے بارے میں بتایا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ماہ رنگ اور ایک اور بلوچ کارکن کو ایک ساتھ رکھا گیا تھا لیکن باقی تمام قیدیوں سے الگ کر دیا گیا تھا۔
نادیہ نے مزید کہا کہ ماہ رنگ نے مجھ سے کہا کہ ہمیں ڈرانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے، لیکن ہم اپنے حقوق اور انصاف کے لیے جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے جدوجہد جاری رکھوں گی اور ہر پلیٹ فارم پر اپنی آواز بلند کروں گی۔ اس طرح کی گرفتاریاں اور مقدمات میرے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتے۔
نادیہ کے مطابق ماہ رنگ نے کہا کہ اس کی جدوجہد سچائی اور انصاف کے لیے ہے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ ’ہمیں متحد رہنا ہوگا اور پرامن طریقے سے اپنی آواز بلند کرنی ہوگی تاکہ دنیا ہمارے جائز مطالبات کو سمجھے کیونکہ ہر قربانی ہمیں منزل کے قریب لے جا رہی ہے۔‘
نادیہ کے مطابق ماہ رنگ نے ان سے کہا کہ ’مجھے جیل حکام سے معلوم ہوا کہ میرے اہل خانہ ملاقات کے لیے آئے تھے اور انہیں اجازت نہیں دی جا رہی تھی، اس لیے میں نے ان سے کہا کہ اگر میرے اہل خانہ اور میرے وکیل کو مجھ سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی تو میں اس کمرے کو اندر سے بند کر دوں گی اور جو بھی نقصان میں خود کو پہنچاؤں گی، اس کی ذمہ دار جیل انتظامیہ ہوگی اور جیل انتظامیہ بلوچ قوم کو جوابدہ ہوگی، شاید اسی لیے آپ لوگوں کو ملنے کی اجازت دی گئی۔‘
دریں اثنا نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ وہ ماہ رنگ کی حراست سے ’ پریشان اور فکرمند’ ہیں۔
ملالہ نے ’ ایکس ’ پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’ وہ لاکھوں بے آواز لوگوں - خواتین اور بچوں - کی نمائندگی کرتی ہیں جو بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا کر رہے ہیں، یہ ان کا حق ہے کہ وہ سب سے کمزور لوگوں کے لیے احتجاج کریں اور بولیں - اور انہیں فوری طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔ میں ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ کھڑی ہوں۔’
بین الاقوامی انسانی حقوق کے وکیل کرتولوش باسٹیمر نے کہا کہ وہ ماہ رنگ کی ’ من مانی گرفتاری اور حراست’ کے معاملے کو اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے من مانی حراست میں لے جا رہے ہیں۔