کراچی: صحافی فرحان ملک کا غیر ملکیوں سے فراڈ کے مقدمے میں 5 روزہ جسمانی ریمانڈ
کراچی میں جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کی عدالت نے مبینہ کال سینٹر کے ذریعے غیر ملکیوں سے فراڈ کے نئے مقدمے میں صحافی فرحان ملک کو 5 روز جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا۔
ڈان نیوز کے مطابق ایف آئی اے نے صحافی فرحان ملک کو عدالت میں پیش کیا، دوسرے مقدمے میں فرحان ملک پر کال سینٹر کے ذریعے غیرملکیوں سے فراڈ کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
فرحان ملک کے خلاف درج ایف آئی آر کے مطابق 25 مارچ کو گلشن اقبال میں ایک کال سینٹر پر چھاپہ مارا گیا تھا، اس دوران 2 ملزمان اطیر حسین اور حسن نجیب کو گرفتار گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق گرفتار ملزمان غیر ملکیوں سے فراڈ میں ملوث ہیں، سافٹ ویئر کے ذریعے غیر ملکیوں سے ان کا خفیہ ڈیٹا حاصل کیا جارہا تھا، گرفتار ملزمان نے بتایا ہے کہ یہ کام فرحان گوہر ملک کے کہنے پر ہورہا ہے، ملزمان فراڈ اور دھوکا دہی میں ملوث ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز جوڈیشل مجسٹریٹ کراچی شرقی کی عدالت نے صحافی فرحان ملک کو 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجتے ہوئے ان کی درخواست ضمانت پر نوٹس جاری کردیے تھے۔
قبل ازیں جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی عدالت نے 21 مارچ کو فرحان ملک کو 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کیا تھا۔
واضح رہے کہ فرحان ملک نامور صحافی، ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم رفتار کے بانی اور سما ٹی وی کے سابق ڈائریکٹر نیوز ہیں، ایف آئی اے سائبر کرائم کراچی نے فرحان ملک کو 20 مارچ کو گرفتار کیا تھا، فرحان ملک کے خلاف گزشتہ 3 ماہ سے یہ انکوائری جاری تھی۔
فرحان ملک کی اہلیہ نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا تھا کہ ان کے خلاف کوئی تحریری چارج شیٹ نہیں تھی اور نہ ہی ان کی گرفتاری کی کوئی وجہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں ایف آئی آر موصول نہیں ہوئی اور نہ ہی ہمیں الزامات کے بارے میں کچھ بتایا گیا ہے، تاہم وہ یہ جانتی ہیں کہ ان کے شوہر گلستان جوہر میں ایف آئی اے سائبر کرائم کے آفس میں موجود ہیں۔
اہلیہ نے مزید بتایا تھا کہ فرحان ملک خود ہی ایف آئی اے کے پاس کوئی بات کرنے گئے تھے لیکن گھنٹوں انتظار کے باوجود کسی نے انہیں جواب نہیں دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سوچ رہے تھے کہ صرف ایک ملاقات ہوگی کیوں کہ ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ ان سے کسی معاملے پر تفتیش کی جائے تاہم تقریباً 5 گھنٹوں بعد انہیں حراست میں لے لیا گیا‘۔
فرحان ملک کے بیٹے نے بتایا کہ ’میرے والد دوپہر ایک بجے ایف آئی اے کے دفتر گئے تھے اور شام 6 بجے کے قریب انہیں بغیر کسی وضاحت کے گرفتار کر لیا گیا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ میرے والد کو کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے، انہوں نے تو کوئی جرم نہیں کیا، وہ ایک صحافی ہیں جو لوگوں کی آواز بنتے ہیں، طاقتور لوگوں کا احتساب کرتے ہیں اور سچائی پر یقین رکھتے ہیں‘۔