پاکستان اور آئی ایم ایف کا نئی کاربن لیوی متعارف کرانے، بجلی سستی، پانی مہنگا کرنے پر اتفاق
پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اسٹاف لیول ایگریمنٹ (ایس ایل اے) کے تحت نئی کاربن لیوی متعارف کرانے، بجلی کے نرخوں میں کمی، پانی کی قیمتوں میں اضافے اور آٹوموبائل سیکٹر کو عالمی تجارت کے لیے کھولنے پر اتفاق کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کی ٹیم توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت 37 ماہ کے توسیعی انتظامات کے پہلے جائزے اور آئی ایم ایف کی ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی سہولت (آر ایس ایف) کے تحت پاکستانی حکام کے ساتھ 28 ماہ کے اسٹاف لیول ایگریمنٹ (ایس ایل اے) پر پہنچ گئی ہے۔
اس طرح پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی امداد کا مجموعی حجم 8 ارب 30 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
یہ معاہدہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے، منظوری کے بعد پاکستان کو ای ایف ایف کے تحت تقریباً ایک ارب ڈالر تک رسائی حاصل ہو جائے گی، جس کے بعد اس پروگرام کے تحت مجموعی طور پر 2 ارب ڈالر پاکستان کو موصول ہوجائیں گے۔
اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کی یادداشت (ایم ای ایف پی) سے متعلق ایس ایل اے سے واقف سینئر عہدیداروں نے بتایا کہ وزیر اعظم کی جانب سے بجلی کے اوسط نرخوں میں تقریباً 7 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان چند دنوں میں کیا جائے گا، لیکن اس کا اطلاق یکم اپریل 2025 سے ہوگا۔
کاربن لیوی، پانی کی قیمتوں اور آٹوموبائل پروٹیکشن ازم جیسے دیگر بڑے اقدامات بتدریج کیے جائیں گے، جن پر عمل درآمد یکم جولائی 2025 سے شروع ہوگا۔
توانائی کی سبسڈی میں کمی اور سخت ترقیاتی اخراجات کے ذریعے آئندہ بجٹ میں مجموعی طور پر مالی استحکام جاری رہے گا۔
عہدیداروں نے بتایا کہ حکومت نے لاگت کو کم کرنے کے لیے بجلی پر جی ایس ٹی کی شرح میں کمی کی درخواست کی تھی، آئی ایم ایف نے جی ایس ٹی کے نظام میں مزید بگاڑ کی اجازت نہیں دی، لیکن بجلی کے نرخوں کی تلافی کے لیے زیادہ پیٹرولیم لیوی کے استعمال کی اجازت دی۔
پیٹرولیم لیوی میں 10 روپے فی لیٹر اضافے سے تقریباً ایک روپے 80 پیسہ فی یونٹ بجلی کا تخمینہ لگایا گیا تھا، بجلی کی خریداری کے تمام معاہدوں اور زیر التوا سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ سے ہونے والی بچت کے مشترکہ اثرات کا مطلب ہے کہ مجموعی نرخوں میں تقریباً 7 روپے فی یونٹ کمی ہوگی، جس کا اعلان وزیر اعظم اپنی پسند کی تاریخ پر کریں گے۔
حکام کا کہنا ہے کہ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات اور کوئلے سمیت تمام ہائیڈرو کاربن پر کاربن لیوی متعارف کرانے کا وعدہ کیا ہے، جو 3 سے 5 روپے فی لیٹر یا اس کے مساوی ہوگی، یہ لیوی آہستہ آہستہ بڑھے گی، اور اس کی آمدنی ماحولیات سے متعلق مخصوص اخراجات کی مد میں خرچ کی جائے گی۔
مالی سال 2030 سے آٹوموبائل سیکٹر کے لیے اوسط تجارتی ٹیرف (جیسے کسٹم ڈیوٹیز) کو بھی اب سے تقریباً 10.5 فیصد سے کم کرکے 6 فیصد کردیا جائے گا، آئی ایم ایف اور حکام دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ آٹو سیکٹر کو طویل عرصے سے بہت زیادہ تحفظ حاصل تھا اور یہ ختم ہونا چاہیے۔
ان دونوں اقدامات کی کابینہ کی منظوری آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کی جائے گی، اور پھر فنانس بل 26-2025 کے ذریعے یکم جولائی 2025 سے عمل درآمد کے لیے پیش کیا جائے گا، ذرائع کا کہنا ہے کہ پانی کی قیمتوں کی منظوری بھی صوبوں کی مشاورت سے دی جائے گی اور اس سے علیحدہ طور پر دیکھا جائے گا۔
میکرو اکنامک استحکام
آئی ایم ایف نے چیلنجنگ عالمی ماحول کے باوجود میکرو اکنامک استحکام کی بحالی اور اعتماد کی بحالی میں گزشتہ 18 ماہ کے دوران پاکستان کی نمایاں پیش رفت کو سراہا۔
اگرچہ معاشی نمو معتدل ہے، افراط زر 2015 کے بعد سے اپنی کم ترین سطح پر آگیا ہے، مالی حالات میں بہتری آئی ہے، خودمختار ی کے پھیلاؤ میں نمایاں کمی آئی ہے اور بیرونی توازن مضبوط ہے۔
عالمی مالیاتی فنڈ نے بڑھتے ہوئے منفی خطرات پر بھی روشنی ڈالی، اور ممکنہ میکرو اکنامک پالیسی میں کمی کے خلاف متنبہ کیا، جس کی وجہ سے پالیسیوں میں نرمی کے دباؤ کے ساتھ ساتھ اجناس کی قیمتوں میں جغرافیائی سیاسی مسائل، عالمی مالیاتی حالات سخت ہونے، یا بڑھتی ہوئی تحفظ پسندی، جو مشکل سے حاصل کردہ میکرو اکنامک استحکام کو کمزور کر سکتی ہے۔
مزید برآں، ماحولیات سے متعلق خطرات پاکستان کے لیے اہم چیلنج ہیں، جس کی وجہ سے موافقت کے اقدامات سمیت لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران حاصل ہونے والی پیش رفت کو جاری رکھا جائے، پبلک فنانس کو مزید مستحکم کرکے لچک پیدا کی جائے، قیمتوں میں استحکام کو یقینی بنایا جائے، بیرونی بفرز کی تعمیر نو کی جائے اور نجی شعبے کی قیادت میں مضبوط، جامع اور پائیدار ترقی کی حمایت میں خرابیوں کو ختم کیا جائے۔
حکام مالی سال 25 میں جی ڈی پی کے کم از کم ایک فیصد کے بنیادی سرپلس کے حصول کی راہ پر گامزن ہیں اور مالی سال 26 کے بجٹ میں استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔ موجودہ اخراجات کو بجٹ سے زیادہ بڑھانے سے گریز کرتے ہوئے حکومت توانائی کی سبسڈی میں مزید کمی کرے گی اور ترقیاتی اخراجات کو ترجیح دے گی۔
حکومت محصولات کو متحرک کرنے، اخراجات کی کارکردگی اور شفافیت میں اضافہ جاری رکھے گی، اور ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرے گی۔ صوبوں میں زرعی انکم ٹیکس (اے آئی ٹی) کے نظام کا اطلاق یکم جولائی 2025 سے ہوگا اور مالی سال 26 میں زیادہ سے زیادہ مالی منتقلی کو یقینی بنایا جائے گا۔
پاکستان نے اعداد و شمار کی بنیاد پر مناسب سخت مانیٹری پالیسی برقرار رکھنے کا بھی عہد کیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ افراط زر اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے درمیانی مدت کے ہدف 5 سے 7 فیصد کے اندر برقرار رہے اور ایف ایکس ریزرو بفرز کی تعمیر نو کرتے ہوئے ایکسچینج ریٹ لچک کی حمایت کرنے کے لیے مکمل طور پر فعال غیر ملکی زرمبادلہ مارکیٹ کو برقرار رکھا جائے۔
توانائی کے شعبے میں لاگت میں کمی لانے والی بنیادی اصلاحات قابل عملیت میں اضافہ اور کم ٹیرف کو جاری رکھیں گی، سیکٹر کے گردشی قرضوں کے اسٹاک اور بہاؤ کو کم کرنے کے لیے ٹیرف ایڈجسٹمنٹ ترجیح رہے گی، حکومت لاگت سے متعلق اصلاحات میں تیزی لائے گی، جن میں ڈسٹری بیوشن کی استعداد کار کو بہتر بنانے، بجلی کو بجلی کے گرڈ میں ضم کرنے، ٹرانسمیشن سسٹم کو بہتر بنانے، غیر موثر پیداواری کمپنیوں کی نجکاری اور قابل تجدید توانائی کو اپنانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔
حکومت تمام ایس او ایز میں ’ایس او ای گورننس فریم ورک‘ کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو آگے بڑھائے گی، جب کہ پاکستان ساورن ویلتھ فنڈ (پی ایس ڈبلیو ایف) کے لیے مناسب گورننس میکانزم اور حفاظتی اقدامات اپنائے گی۔
آر ایس ایف کے تحت حکومت ہر سطح پر عوامی سرمایہ کاری کے عمل کو مضبوط بنائے گی تاکہ ایسے منصوبوں کو ترجیح دی جاسکے جو آفات سے نمٹنے میں اضافہ کرتے ہیں۔
پانی کے نایاب وسائل کے استعمال کی کارکردگی کو بہتر بنانا، ڈیزاسٹر فنانسنگ پر بین الحکومتی کوآرڈینیشن کو بڑھانا، معلومات کے فن تعمیر کو بہتر بنانا، مالی اور کارپوریٹ ماحولیات سے متعلق خطرات کے انکشاف، اہم آلودگی اور صحت کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے سبز نقل و حرکت کو فروغ دیا جائے گا۔
اے پی پی کے مطابق بدھ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کے ساتھ عملے کی سطح کے معاہدے کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ اضافی ٹیکس اقدامات کی ضرورت کے بغیر حاصل کیا گیا، جو حکومت کے عزم اور منصوبہ بندی کا ثبوت ہے۔
انہوں نے معاشی استحکام کے حصول کے عمل کے دوران قیمتوں میں اضافے کا بوجھ اٹھانے والے عوام کو درپیش مشکلات کا اعتراف کیا، انہوں نے تنخواہ دار افراد کو بھی خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے ٹیکس وصولی میں بڑا حصہ ڈالا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت کو آئی ایم ایف سے ایک ارب 30 کروڑ ڈالر ملیں گے جس سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 8 ارب 30 کروڑ ڈالر تک بڑھ جائیں گے، انہوں نے آئی ایم ایف معاہدے کے حصول میں وفاقی حکومت کی حمایت میں تمام صوبائی حکومتوں کے کردار پر بھی روشنی ڈالی۔