آئی جی اسلام آباد نے صحافی احمد نورانی کے لاپتا بھائیوں کی بازیابی کیلئے دو ہفتے کی مہلت مانگ لی
انسپکٹر جنرل آف پولیس ( آئی جی ) اسلام آباد نے صحافی احمد نورانی کے لاپتا بھائیوں کی بازیابی کے لیے ہائی کورٹ سے دو ہفتے کی مہلت مانگ کرلی۔
امریکا میں مقیم صحافی احمد نورانی کے دو لاپتا بھائیوں کی بازیابی کی درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس انعام امین منہاس نے کی، آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ انہیں صحافی احمد نورانی کے دو لاپتا بھائیوں کو بازیاب کرانے کے لیے چودہ دن درکار ہوں گے۔
خیال رہے کہ امریکا میں مقیم صحافی احمد نورانی، جو فیکٹ فوکس نامی ایک نیوز آؤٹ لیٹ کے لیے کام کرتے ہیں، نے حال ہی میں ایک حاضر سروس اعلیٰ فوجی اہلکار اور اس کے رشتہ داروں کے بارے میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی تھی۔
احمد نورانی کے دو بھائی، محمد سیف الرحمٰن حیدر اور محمد علی، 19 مارچ کو اپنی رہائش گاہ سے لاپتا ہو گئے تھے۔ احمد نورانی کی والدہ امینہ بشیر نے اپنے دو بیٹوں کی بازیابی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
منگل کو، رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے احمد نورانی کے بھائیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے اسے ’ (احمد نورانی) کو ڈرانے اور خاموش کرانے کے لیے ایک واضح انتقامی کارروائی’ قرار دیا۔
آج کی سماعت جسٹس انعام امین منہاس نے کی، جبکہ درخواست گزار کی نمائندگی کرنے والی ایڈووکیٹ ایمان مزاری احمد نورانی کی والدہ اور بہن کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئیں۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس منہاس نے آئی جی علی ناصر رضوی سے پوچھا کہ انہیں دونوں بھائیوں کو بازیاب کرانے کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا، جس پر آئی جی نے جواب دیا کہ انہیں دو ہفتے درکار ہوں گے۔
اسی دوران احمد نورانی کی والدہ روسٹرم پر نمودار ہوئیں اور چیخ کر کہا کہ ایک سال لے لیں۔
جسٹس منہاس نے آئی جی علی ناصر رضوی سے کہا کہ میں نے اسٹیشن ہاؤس آفیسر سے پوچھ گچھ کرنے اور ہمیں بتانے کے لیے کہا تھا۔
آئی جی نے جواب دیا کہ وہ خود اس معاملے کی نگرانی کر رہے ہیں اور انہوں نے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس آپریشنز کی نگرانی میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی ہے۔
آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے جیو فینسنگ کی ہے اور سی ڈی آر (کال ڈیٹیل ریکارڈز) بھی حاصل کیے ہیں۔ 27 تھانوں یا سی ٹی ڈی میں کسی کے پاس ( دونوں بھائیوں کے ٹھکانے کے بارے میں) معلومات نہیں ہیں۔
آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ ہم نے ملک بھر کے تمام آئی جیز اور جیلوں سے رابطہ کیا ہے، لیکن (لاپتا بھائیوں سے متعلق ) معلومات کہیں دستیاب نہیں ہیں، ہم تمام صوبوں کے آئی جی پیز کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں اور معلومات طلب کی ہیں۔
آئی جی علی ناصر رضوی نے کہا کہ انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کو مطلع کر دیا گیا ہے اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) سے جواب کا انتظار ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان ناموں کا کوئی بھی شخص بیرون ملک نہیں گیا۔
آئی جی نے مزید کہا کہ انہوں نے چیف کمشنر، مقامی اضلاع اور ہسپتالوں سے بھی تصدیق کی ہے، لیکن کوئی معلومات نہیں ملیں۔
آئی جی کا کہنا تھا کہ ہم نے ( ریسکیو) 15 سے بھی تصدیق کی، کچھ نہیں ملا، 15 میں آٹو ریکارڈ سسٹم ہے، ہمیں اس وقت کوئی کال بھی موصول نہیں ہوئی۔
عدالت نے پوچھا کہ حل کیا ہے جب کہ لوگ پہلے ہی لاپتا ہو چکے ہیں، اس پر آئی جی علی ناصر رضوی نے جواب دیا کہ ہمیں مزید وقت درکار ہے، ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں۔
اس پر ایمان مزاری نے کہا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے ہسپتالوں کی جانچ کی ہے، ہر چیز کی جانچ کی ہے؛ کیا کسی نے ان کی جانچ کی ہے؟
ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ ہم نے وزارت داخلہ کے ماتحت انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حوالے سے الزامات لگائے ہیں۔
جسٹس منہاس نے کہا کہ انہیں نوٹس دیے گئے ہیں، جب وہ جواب دیں گے تو ہم دیکھ سکتے ہیں۔
ایمان مزاری نے کہا کہ پولیس نے ان لوگوں کو پکڑ لیا ہے جن کے پاس کیمرے تھے۔ اس پر جسٹس منہاس نے کہاکہ پولیس کو اس بارے میں بتائیں تاکہ وہ معاملے کی جانچ کر سکے۔
جسٹس منہاس نے کہا کہ وہ ( احمد نورانی کے بھائی) اسلام آباد سے کیسے نکلے؟ وہ کہاں ہیں؟ یہ دیکھنا ضروری ہے۔
ایڈووکیٹ مزاری نے پوچھا کہ کیا سیف ہاؤسز کی جانچ کی گئی ہے؟
ایمان مزاری نے صحافی وحید مراد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کل ایک اور صحافی کو اٹھایا گیا اور پھر ایف آئی اے نے اسے (عدالت میں) پیش کیا۔
واضح رہے کہ وحید مراد کو ایف آئی اے نے اسلام آباد کی ایک عدالت میں پیش کیا تھا جب ان کے اہل خانہ نے الزام لگایا تھا کہ انہیں ’ اغوا ’ کیا گیا تھا۔
وحید مراد کو بعد ازاں سائبر کرائم قوانین کے تحت دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر بھیج دیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے آن لائن ’دھمکی آمیز مواد‘ پوسٹ کیا تھا۔
جسٹس منہاس نے کہا کہ اب وزارت دفاع کے لیے جواب دینا ضروری ہوگیا ہے۔ انہوں نے وزارت دفاع کے سیکرٹری کو اگلی سماعت پر جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔
احمد نورانی کی والدہ نے کہا کہ اگر آپ اللہ کو گواہ جانتے ہیں تو مجھے بتائیں کہ اگر یہ آپ کے بچے ہوتے، یا ان کے بچے ہوتے تو آپ کیا کرتے؟
انہوں نے سوال کیا کہ اس دن میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ اگر میرے بیٹوں کو کچھ ہوا تو کون ذمہ دار ہوگا۔ اس پر ایمان مزاری نے کہا کہ عدالت کو لاپتا دونوں بھائیوں کی بازیابی اور پیشی کا حکم دینا چاہیے۔
عدالت نے احمد نورانی کے بھائیوں کی گمشدگی کے حوالے سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت عید الفطر کے بعد تک ملتوی کر دی۔