ترکیہ: امام اوغلو کی گرفتاری کے بعد ملک گیر مظاہروں پر 1900 افراد گرفتار
ترکیہ میں استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو کی گرفتاری اور اس کے نتیجے میں ہونے والے ملک گیر مظاہروں پر 1900 افراد کو حراست میں لے لیا۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ترکیہ نے میئر استنول اکرام امام اوغلو کی گرفتاری اور اس کے بعد ملک گیر مظاہروں پر ’ متعصبانہ’ بین الاقوامی بیانات کو مسترد کردیا ہے، اور مظاہروں میں حصہ لینے والے تقریباً 1900 افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
امام اوغلو، جو صدر طیب اردوان کے سب سے بڑے سیاسی حریف ہیں اور بعض پولز میں ان سے آگے ہیں، کو اتوار کے روز بدعنوانی کے الزام میں زیر التوا مقدمہ میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری کے بعد ایک دہائی میں سب سے بڑے حکومت مخالف مظاہرے ہوئے اور ملک بھر میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں۔
امام اوغلو کی مرکزی اپوزیشن ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP)، دیگر اپوزیشن جماعتوں، انسانی حقوق کے گروپوں اور مغربی طاقتوں سمیت سب نے کہا ہے کہ میئر کے خلاف مقدمہ ، جنہیں اس کیس کی وجہ سے ان کی ملازمت سے برطرف کر دیا گیا تھا، اردوان کے لیے ایک ممکنہ انتخابی خطرے کو ختم کرنے کی ایک سیاسی کوشش تھی۔
دوسری جانب ترکیہ کی حکومت عدلیہ پر کسی بھی اثر و رسوخ کی تردید کرتی ہے اور کہتی ہے کہ عدالتیں آزاد ہیں۔
استنبول میں بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے، وزیر انصاف یلماز تونج نے کہا کہ انقرہ نے اپنے یورپی شراکت داروں سے ’ کامن سینس’ “ سے کام لینے کی درخواست کی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ امام اوغلو کے خلاف الزامات کی سنگینی ان کی گرفتاری کی متقاضی تھی۔ یلماز تونج کا مزید کہنا تھا کہ ہم کسی بھی سیاستدان کی گرفتاری نہیں چاہتے، لیکن اگر خلاف ورزی کا ثبوت موجود ہے تو ایسا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم الزامات کی سنگینی کو دیکھیں تو اس لیے عدلیہ نے ایک معقول فیصلہ کیا ہے۔
دوسری جانب سی ایچ پی (CHP) نے ترک باشندوں سے احتجاج جاری رکھنے کا مطالبہ کیا ہے، اور کہا ہے کہ وہ استنبول اور دیگر مقامات پر مختلف مقامات پر ریلیاں اور اجتماعات منعقد کرے گی۔ اردوان نے مظاہروں کو ’ نمائش’ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور مظاہرین کو قانونی نتائج سے خبردار کیا ہے۔
وزیر داخلہ علی یرلیکایا نے کہا کہ گزشتہ بدھ کو مظاہرے شروع ہونے کے بعد سے 1879 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ عدالتوں نے ان میں سے 260 کو جیل بھیج دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 489 افراد کو رہا کر دیا گیا اور 662 دیگر افراد کی ابھی تک جانچ پڑتال کی جا رہی ہے، جبکہ احتجاجی مظاہروں میں 150 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
انسانی حقوق کے گروپوں نے ترکیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے دوران طاقت کے نامناسب استعمال کی تحقیقات کرے اور حکومت پر زور دیا کہ وہ بڑے پیمانے پر پرامن مظاہروں کی اجازت دے۔ مغربی رہنماؤں نے کہا ہے کہ اس واقعے سے جمہوریت پسندی میں تنزلی آئی ہے۔
امام اوغلو کی گرفتاری کے وقت کے بارے میں پوچھے جانے پر، جو 2028 میں ہونے والے انتخابات میں سی ایچ پی کے صدارتی امیدوار کے طور پر ان کے اعلان سے چند دن پہلے اور اپوزیشن پر مہینوں طویل قانونی کریک ڈاؤن کے بعد ہوئی تھی، یلماز تونج نے کہا کہ عدلیہ نے صرف مجرمانہ رپورٹس کو دیکھا۔
وزیر انصاف نے مزید کہا کہ منتخب عہدیدار ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی سزا سے مبرا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امام اوغلو کے خلاف مقدمے کی رازداری کی وجہ سے اردوان کو اس بارے میں مطلع نہیں کیا جا رہا ، حالانکہ صدر نے سی ایچ پی اور اس کی میونسپلٹیوں پر بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے کئی تبصرے کیے ہیں۔
گزشتہ ہفتے امام اوغلو کی حراست سے ایک دن قبل، ایک یونیورسٹی نے ان کی ڈگری منسوخ کر دی، جو صدارتی انتخابات میں امیدواروں کے لیے اہلیت کی شرط ہے۔
استنبول میں مظاہروں کی کوریج کرنے والے سات مقامی صحافیوں کی گرفتاری اور بعد میں رہائی کے بارے میں پوچھے جانے پر، جن میں اے ایف پی کے ایک فوٹو جرنلسٹ بھی شامل تھے، یلماز تونج نے کہا کہ ترکی کے صحافیوں کے ساتھ سلوک کے بارے میں غلط فہمی ہے ، کسی رپورٹر کو جیل میں نہیں ڈالا گیا۔
فری سپیچ ایڈوکیٹ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے 2024 کے پریس فریڈم انڈیکس میں ترکیہ کو 180 ممالک میں سے 158 ویں نمبر پر رکھا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ تقریباً 90 فیصد میڈیا حکومتی اثر و رسوخ میں ہے، جس کی وجہ سے ترک باشندے اپوزیشن یا آزاد نیوز آؤٹ لیٹس کی طرف زیادہ رجوع کرتے ہیں۔
اس پر ترکیہ کے وزیر انصاف کا کہنا تھا کہ یہ انڈیکس حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا۔