• KHI: Zuhr 5:00am Asr 5:00am
  • LHR: Zuhr 5:00am Asr 5:00am
  • ISB: Zuhr 5:00am Asr 5:00am
  • KHI: Zuhr 5:00am Asr 5:00am
  • LHR: Zuhr 5:00am Asr 5:00am
  • ISB: Zuhr 5:00am Asr 5:00am

سول سوسائٹی کا حکومت سے انسانی حقوق کے بحرانوں کا فوری حل نکالنے کا مطالبہ

شائع March 27, 2025
فوٹو:  ڈان
فوٹو: ڈان

پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) اور دیگر سول سوسائٹی گروپس نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک کو متاثر کرنے والے موجودہ ’ انسانی حقوق کے بحرانوں’ بشمول مظاہرین پر کریک ڈاؤن اور توہین رسالت اور سائبر کرائم قوانین کے غلط استعمال کا فوری حل نکالے۔

یہ مطالبہ بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے مظاہرین پر حالیہ کریک ڈاؤن کے درمیان سامنے آیا ہے جو کراچی اور کوئٹہ میں اپنے رہنماؤں کی جبری گمشدگیوں اور گرفتاریوں کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے، نیز صحافیوں کو نشانہ بنانے سے لے کر پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 اور توہین رسالت قوانین کے تحت کیسز میں اضافے تک انسانی حقوق کے دیگر مسائل کی ایک لہر بھی جاری ہے۔

میڈیا ٹاک کے بعد جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق ایچ آر سی پی اور دیگر سول سوسائٹی اور حقوق گروپس نےجمعرات کو کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی تاکہ ان مسائل پر توجہ مبذول کرائی جا سکے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ’ ملک بھر میں متعدد انسانی حقوق کے بحرانوں’ کو فوری طور پر حل کریں۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ریاستی آمریت میں اضافہ، طاقت کے ذریعے اختلاف رائے کو دبانا، پریس کی آزادی پر پابندیاں اور حکمرانی پر اسٹیبلشمنٹ کا تیزی سے بڑھتا ہوا اثر و رسوخ وسیع پیمانے پر عدم اطمینان کا باعث بنا ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ صحافیوں اور حقوق کے کارکنوں کی قلیل مدتی جبری گمشدگی اب تشویش کا ایک اہم سبب ہے۔

پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے مبینہ کردار نے ’ جمہوری حکمرانی کی قیمت پر بہت زیادہ اثر و رسوخ حاصل کر لیا ہے’ جبکہ عدلیہ میں سیاسی مداخلت کے الزامات نے قانونی نظام پر عوام کے اعتماد کو بھی متزلزل کر دیا ہے۔

ایچ آر سی پی اور سول سوسائٹی نے مزید کہا کہ مذہبی انتہا پسندی کو پسماندہ گروہوں، خاص طور پر پنجاب میں احمدی برادری کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے سرحدی علاقوں، خاص طور پر خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے عام لوگ تشدد اور بھتہ خوری کے خطرے سے دوچار ہوگئے ہیں جس سے مسلسل خوف کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔

پریس ریلیز میں مزید کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں، جو کچھ ’ بنیادی حقوق کی جدوجہد’ کے طور پر شروع ہوا تھا، اسے اب ریاست کی طرف سے ’ دہشت گردی’ کا لیبل دیا جا رہا ہے۔

صوبے میں اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ سیاسی مذاکرات شروع کرنے کے بجائے، حکام نے مظاہرین کے خلاف غیر متناسب طاقت کا استعمال جاری رکھا ہے، اور بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسی اثنا میں عسکریت پسند گروہوں نے تشویشناک حد تک شہریوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ سندھ میں، دریائے سندھ پر متنازعہ نہروں کی تعمیر کے خلاف احتجاج میں شدت آئی ہے، کیونکہ ایسا کوئی بھی اقدام لوگوں کے ماحولیاتی حقوق پر براہ راست حملہ ہوگا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ وفاقی حکومت اور سیاسی اپوزیشن دونوں ہی ملک کے مستقبل پر ’ اشد ضرورت کے اتفاق رائے’ پر پہنچنے میں ناکام رہی ہیں اور پارلیمنٹ کا کردار کم ہو گیا ہے، اور قوانین ’ عجلت میں اور بغیر غور و فکر کے’ منظور کیے گئے ہیں۔

ایچ آر سی پی اور سول سوسائٹی کے مشترکہ بیان میں مزید نشاندہی کی گئی کہ مسلسل مہنگائی، بے روزگاری اور مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزیاں بدستور جاری ہیں کیونکہ کم از کم اجرت کے قوانین نافذ نہیں کیے جا رہے، پنشنرز کو ان کے واجبات سے محروم رکھا جا رہا ہے اور سرکاری اور نجی دونوں شعبوں کو تنخواہوں میں تاخیر کا سامنا ہے۔

ایچ آر سی پی اور سول سوسائؕٹی کے گروپوں نے مشترکہ طور پر بلوچستان کے بحران کا سیاسی حل تلاش کرنے کا مطالبہ کیا جس میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ اور حالیہ احتجاج کے بعد حراست میں لیے گئے تمام افراد کی غیر مشروط رہائی شامل ہے۔

انہوں نے ’ ظالمانہ قوانین’ ، بشمول پیکا (PECA)، کو ختم کرنے اور شہری آزادیوں پر پابندی لگانے والی پالیسیوں کو واپس لینے کا بھی مطالبہ کیا۔

اپنے دیگر مطالبات میں، گروپوں نے کہا کہ دریائے سندھ پر نہروں کی تعمیر فوری طور پر بند ہونی چاہیے اور اس کے بجائے پانی کے استعمال کی ایک شفاف پالیسی ہونی چاہیے جو لوگوں کی مرضی کی عکاسی کرے، زرعی ترقی کی آڑ میں تجارتی مقاصد کے لیے زمین پر قبضے کا خاتمہ ہونا چاہیے اور سندھ اور دیگر علاقوں میں بے زمین کسانوں میں سرکاری ملکیت کی زمین کی ازسرنو تقسیم ہونی چاہیے۔

پریس کانفرنس کے دوران، ایچ آر سی پی کے چیئرمین اسد اقبال بٹ نے کم از کم اجرت کا مسئلہ بھی اٹھایا اور ملک میں امن و امان کی کمی کا ذمہ دار مہنگائی کو ٹھہرایا۔

زیبسٹ یونیورسٹی کے ڈین آف آرٹس ریاض شیخ نے جعفر ایکسپریس حملے کے بعد بلوچستان کی یونیورسٹیوں کو مبینہ طور پر عسکریت پسند مخالف مظاہرے منعقد کرنے پر مجبور کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کا جبر طلبا میں نفرت اور ناراضگی کو جنم دے گا۔

دریں اثنا، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری ناصر منصور نے کہا کہ بلوچ مظاہرین اور خواتین کے ساتھ ’ اجتماع اور تقریر کی آزادی کے اپنے حقوق کے استعمال کے جواب میں حکام کی جانب سے سلوک’ کے معاملے میں ایک ’ سرخ لکیر’ عبور کر لی گئی ہے۔

ناصر منصور نے سائبر کرائم قانون کے اس طرح کے استعمال کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’ اگر کوئی صحافی اس کا حوالہ دیتا ہے تو ان پر پیکا ایکٹ لاگو کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی لوگ جمہوری راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، آپ پولیس اور ایجنسیوں سے لوگوں کو بھیجتے ہیں تاکہ ان سے اور دیگر مظاہرین سے نمٹا جا سکے جن پر دفعہ 144 لاگو نہیں ہوتی۔ انہوں نے حکام پر زور دیا کہ وہ 1971 کے بنگلا دیش کے تباہ کن نتائج سے سبق حاصل کریں۔

خواتین ایکشن فورم کی رکن مہناز رحمان نے منصور کے جذبات کی تائید کی اور کہا کہ پیکا قانون نے ’ لوگوں سے آزادی اظہار چھین لی ہے۔’

جیے سندھ محاذ کے چیئرمین خلیق جونیجو نے بھی ناصر منصور سے اتفاق کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ کس طرح بی وائی سی مخالف م مظاہروں کی بظاہر حکام کی حمایت کر رہے تھے لیکن بلوچ حقوق کے مظاہرین کو دفعہ 144 کے تحت گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے دفعہ 144 کے مرضی کے مطابق اطلاق کا حوالہ دیتے ہوئے سندھ کو ’ نوآبادی’ قرار دیا۔

بیرسٹر صلاح الدین احمد نے ملک کے توہین رسالت اور سائبر کرائم قوانین کو ہتھیار بنانے پر بھی تنقید کی اور خبردار کیا کہ ملک ایک ’تباہ کُن‘ کی صورتحال کے قریب پہنچ رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت بیک وقت متعدد مخالف محاذ نہ کھول کر ملک کے بہت سے مسائل کو ’ حکمت عملی’ سے کیسے حل کر سکتی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025