ڈپٹی وزیراعظم کا چینی کی قیمتوں میں کمی کے رجحان پر اظہار اطمینان
ڈپٹی وزیر اعظم اسحٰق ڈار نے چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور سپلائی کی نگرانی کا عزم ظاہرکرتے ہوئے قیمتوں میں کمی کے رجحان پر اظہاراطمینان کیا ہے۔
ڈان نیوز نے ریڈیو پاکستان کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ حکومت چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور مارکیٹ کے استحکام کو یقینی بنانے کے لیے اس کی سپلائی کی نگرانی کرے گی۔
وزیر اعظم کی جانب سے اعلان کردہ نرخوں اور حکومت کی جانب سے خوردہ فروخت کو 130 روپے فی کلوگرام پر برقرار رکھنے کی متعدد کوششوں کے برعکس، ملک بھر کی مختلف مارکیٹوں میں چینی کی قیمتیں 180 روپے فی کلوگرام سے بھی تجاوز کر گئی ہیں۔
اس سے قبل ڈپٹی وزیر اعظم نے خبردار کیا تھا کہ خوردہ سطح پر چینی کی قیمتیں 164 روپے سے زیادہ نہیں ہونی چاہئیں۔
تاہم، اسحٰق ڈار کی تنبیہ کے باوجود صارفین زائد قیمت پر چینی خریدنے پر مجبور ہیں۔ مختلف شہروں میں چینی کی اوسط قومی قیمت 164تا180 روپے فی کلوگرام کے درمیان ہے۔
رپورٹ کے مطابق، اسلام آباد میں ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے ملک میں چینی کے موجودہ بحران پر قابو پانے کے سلسلے میں عزم کا اظہار کیا۔
اجلاس کے دوران اسحٰق ڈار نے کمیٹی کے پہلے طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد کا جائزہ لیا، اورچینی کی قیمتوں میں کمی کے رجحان پر اطمینان کا اظہار کیا۔
اسحٰق ڈار نے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (PSMA) کو ہدایت کی کہ وہ ملک بھر میں چینی کی خوردہ قیمتوں کو 164 روپے فی کلوگرام یا اس سے کم پر رکھنے کے معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
چینی کی کھپت میں معمولی اضافہ متوقع ہے جو 6.7 ملین ٹن تک پہنچ جائے گی کیونکہ آبادی میں اضافے اور فوڈ پروسیسنگ سیکٹر کی طلب کی وجہ سے اس میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
پچھلے سیزن کے دوران، پاکستان نے 6.84 ملین ٹن سے زیادہ چینی پیدا کی تھی جس میں 2024-25 میں اضافے کی توقع ہے۔
صارفین کی جیبوں سے اس مبینہ بڑے پیمانے پر رقم نکالنے کے پیش نظر، کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) نے بیان دیا تھا کہ وہ جاری چینی بحران کی کڑی نگرانی کر رہا ہے اور خبردار کیا کہ اگر کوئی بھی مسابقتی مخالف سرگرمی پائی گئی تو سخت کارروائی اور پالیسی اقدامات کیے جائیں گے۔ سی سی پی چینی کی صنعت میں کارٹیلائزیشن کو روکنے، منصفانہ مسابقت کو فروغ دینے اور صارفین کے تحفظ کے لیے کام کر رہا ہے۔
2020 میں شروع کی گئی سی سی پی کی انکوائری سے انکشاف ہوا کہ شوگر ملیں پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی سہولت کاری سے بادی النظر میں قیمتیں طے کرنے اور مربوط اقدامات کے ذریعے سپلائی کو کنٹرول کرنے میں ملوث تھیں۔
سی سی پی نے اگست 2021 میں شوگر ملوں اور پی ایس ایم اے پر چھاپے بھی مارے اور 44 ارب روپے جرمانہ عائد کیا، جو اس کی تاریخ میں کیے گئے سب سے زیادہ جرمانوں میں سے ایک ہے۔