• KHI: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • ISB: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • KHI: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • ISB: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am

وائس آف امریکا کے صحافیوں کی اچانک برطرفی کے بعد آپشنز کی تلاش جاری

شائع March 29, 2025
وائس آف امریکا دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں تک امریکی حکومت کی آواز پہنچانے والا ادارہ سمجھا جاتا تھا — فائل فوٹو: ایکس
وائس آف امریکا دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں تک امریکی حکومت کی آواز پہنچانے والا ادارہ سمجھا جاتا تھا — فائل فوٹو: ایکس

کئی دہائیوں سے وائس آف امریکا (وی او اے) اور اس سے وابستہ میڈیا اداروں کے لیے کام کرنے والے صحافی اپنی ملازمتوں کو صنعت میں سب سے زیادہ محفوظ اور اچھی تنخواہوں والے اداروں میں شمار کرتے رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس ماہ صورتحال اس وقت بدل گئی جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی ایجنسی برائے گلوبل میڈیا (یو ایس اے جی ایم) کو ختم کرنے، وائس آف امریکا، ریڈیو فری یورپ/ ریڈیو لبرٹی (آر ایف ای/آر ایل) اور ریڈیو فری ایشیا (آر ایف اے) کو مؤثر طریقے سے بند کرنے کا حکم دیا۔

امریکی ایجنسی فار گلوبل میڈیا کے نئے سینئر ایڈوائزر کری لیک آر ایف ای/آر ایل کے لیے فنڈنگ ختم کرنے کا حکم منسوخ کرنے کے عدالتی حکم سے خوش ہوکر اب بھی اپنے آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکا کے سیکڑوں سابق صحافیوں نے واشنگٹن اور نیو یارک میں مقدمات دائر کر کے اپنی برطرفی کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے، درخواست گزاروں میں وائس آف امریکا کے ڈائریکٹر مائیکل ابراموٹز، رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) جیسے میڈیا ایڈووکیسی گروپس اور مزدور تنظیمیں شامل ہیں۔

چند روز قبل ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کی امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج رائس لیمبرتھ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ یو ایس اے جی ایم آر ایف ای/آر ایل کو بغیر کسی وضاحت کے بند کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی، چاہے صدر کی ہدایت ہی کیوں نہ ہو۔

غیر یقینی ملازمت کی مارکیٹ

وائس آف امریکا کی اردو اور پشتو سروسز سے تعلق رکھنے والے 100 سے زائد پاکستانیوں سمیت نئے بے روزگار صحافیوں کے ایک گروپ نے حال ہی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپنی ملازمتوں کی بحالی اور نئے آپشنز تلاش کرنے کے اپنے منصوبوں کے بارے میں بتایا۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ صحافیوں کے لیے ملازمتوں کی مارکیٹ تیزی سے خراب ہوتی جا رہی ہے، وائس آف امریکا کے ایک سابق رپورٹر نے پریشان کن رجحانات پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ ’واشنگٹن پوسٹ نے 2024 میں 10 کروڑ ڈالر کھونے کے بعد اپنی 4 فیصد افرادی قوت کو فارغ کر دیا تھا، اور ووکس میڈیا، ہف پوسٹ جیسے دیگر اداروں نے بھی کٹوتی کی، صرف 2024 میں میڈیا کی تقریباً 15 ہزار نوکریاں ختم ہوئیں۔

امریکی ادارہ برائے محنت شماریات کے مطابق 2023 سے 2033 تک صحافیوں کی ملازمتوں میں 3 فیصد کمی متوقع ہے، جب کہ روایتی میڈیا سکڑ رہا ہے، ڈیجیٹل پلیٹ فارم پھیل رہے ہیں، انٹرنیٹ پبلشنگ اور براڈکاسٹنگ میں روزگار 1990 میں 30 ہزار سے بڑھ کر 2016 میں تقریباً ایک لاکھ 98 ہزار ہوگیا۔

ان چیلنجز کے باوجود کچھ صحافی پرامید ہیں، ایک صحافی کا کہنا تھا کہ ’نیو یارک ٹائمز نے دی ایتھلیٹک اینڈ ورڈل کو حاصل کرکے کامیابی کے ساتھ توسیع کی، مواقع بہت کم ہیں، لیکن موجود ہیں۔‘

ملازمت سے نکالے گئے صحافیوں کے لیے خطرہ

میڈیا کے حامیوں نے متنبہ کیا ہے کہ شٹ ڈاؤن کے پریس کی آزادی پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے، وائس آف امریکا اور اس سے وابستہ تنظیمیں 100 سے زائد ممالک میں 63 زبانوں میں 42 کروڑ افراد تک پہنچتی ہیں، اور ان کی بندش سے امریکی عوامی سفارت کاری کے ساتھ ساتھ اس کی سافٹ پاور کو بھی نقصان پہنچے گا۔

لیکن وائس آف امریکا کے بہت سے صحافیوں کے لیے مالی استحکام حاصل کرنے سے کہیں زیادہ خطرہ ہے، وہ اپنے آبائی ممالک واپس جانے سے ڈرتے ہیں، جہاں امریکی حمایت یافتہ میڈیا کے ساتھ ان کے تعلقات ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اپنے آبائی ملک واپس جانے سے آپ کو شدید خطرات لاحق ہیں تو سیاسی پناہ کے لیے درخواست دینے کا طریقہ کار موجود ہے۔‘

لیکن ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے تارکین وطن کے خلاف قانونی اور غیر قانونی دونوں طرح کے حالیہ کریک ڈاؤن کو دیکھتے ہوئے اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ متاثر ہونے والا ہر شخص اس طرح کی امداد حاصل کر سکے گا۔

’سافٹ پاور‘ کا خاتمہ؟

فارن پالیسی میگزین میں شائع ہونے والے ایک حالیہ مضمون میں سینیٹر جین شاہین نے کہا کہ وائس آف امریکا اور اس کی ذیلی شاخوں کو بند کرنا ’پیوٹن اور دنیا بھر کے ڈکٹیٹروں کی جیت ہے۔‘

اس کٹوتی سے کیوبا میں ریڈیو مارٹی جیسے اہم نشریاتی اداروں کے ساتھ ساتھ افغانستان، بیلاروس، جارجیا اور ایران کے دیگر نیٹ ورکس بھی متاثر ہوئے ہیں، جن میں امریکا کی مالی اعانت سے چلنے والا ادارہ کاسترو برادران کئی دہائیوں سے ختم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ آر ایف اے کے بغیر چین، شمالی کوریا اور میانمار میں رہنے والے لوگ حقائق پر مبنی خبروں سے کٹ جائیں گے۔

’وائس آف امریکا‘ کی نشریات مشکوک حکومتوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی غلط معلومات کے خلاف ’امریکا کے اولی دفاعی لائن‘ رہی ہیں اور اس کی قیمت صحافیوں کو چکانی پڑی ہے، مثال کے طور پر سینیٹر شاہین لکھتے ہیں کہ یو ایس اے جی ایم کے 4 صحافی ویتنام، دو روس، ایک آذربائیجان، ایک بیلاروس اور ایک میانمار کی جیلوں میں قید ہیں۔

اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ نے ان اداروں پر بائیں بازو کے پروپیگنڈے کو فروغ دینے کا الزام عائد کیا ہے، لیکن روس اور چین جیسے ممالک ان کی بندش کا خیر مقدم کر رہے ہیں، جہاں وائس آف امریکا اور اس کے معاون اداروں نے سخت کنٹرول والے سرکاری میڈیا کا متبادل فراہم کیا ہے۔

جیسا کہ نووایا گیزرٹا یورپ نے نوٹ کیا ہے کہ ’پروپیگنڈا واضح طور پر دیکھنے والوں کی نظر میں ہے۔‘

’وائس آف امریکا‘ کی بندش کے بعد سے ’ماسکو ٹائمز‘ نے خبر دی ہے کہ کس طرح کریملن کے حکام ’خالصتاً پروپیگنڈا کرنے والے‘ اداروں کے خاتمے پر خوش ہیں، جب کہ چین کے ’گلوبل ٹائمز‘ نے ’جھوٹ کی فیکٹری‘ کی بندش کا جشن منایا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025