ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستانیوں سمیت متعدد ممالک کے شہریوں پر ویزا پابندیوں کا عمل روک دیا
ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے متعدد ممالک کے شہریوں پر ویزا پابندیاں عائد کرنے کے عمل کو روک دیا ہے، جن کی جانچ پڑتال کے طریقہ کار کو امریکی سیکیورٹی ایجنسیوں نے ناکافی سمجھا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مجوزہ ’سفری پابندی‘ کا اطلاق پاکستان سمیت 40 سے زائد ممالک کے شہریوں پر امریکا کے سفر پر نئی پابندیوں سے متوقع تھا۔
یہ اقدام صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 20 جنوری کو جاری کیے گئے ایک انتظامی حکم نامے کے بعد سامنے آیا، جس کا عنوان ’امریکا کو غیر ملکی دہشت گردوں اور دیگر خطرات سے بچانا‘ ہے۔
اس حکم نامے میں وفاقی ایجنسیوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ دنیا بھر میں اسکریننگ کے معیارکا جائزہ لیں، اور 21 مارچ تک ویزا پابندیوں کی تجویز پیش کریں، تاہم ڈیڈ لائن بغیر کسی اعلان کے گزر گئی، اور محکمہ خارجہ نے بعد میں تصدیق کی کہ پالیسی کے نفاذ کے لیے کوئی نئی ٹائم لائن نہیں ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس سے جب یہ پوچھا گیا کہ ویزا اور سفری پابندیوں سے متعلق سفارشات کے حوالے سے صدر کو رپورٹ پیش کرنے کی ڈیڈ لائن کیا ہے؟ تو انہوں نے 31 مارچ کو ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ’ہدف کی تاریخ‘ کا اطلاق اب نہیں ہوتا۔
اس سے قبل 21 مارچ کو ٹیمی بروس نے اعلان کے بارے میں قیاس آرائیوں کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ڈیڈ لائن آج نہیں ہے‘۔
اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ ایک نظر ثانی کا عمل اب بھی جاری ہے، تاکہ ہم اس بات کا جائزہ لے سکیں کہ ویزوں کے معاملے سے نمٹنے میں امریکا کو کس چیز سے محفوظ رکھنے میں مدد ملے گی اور کس کو ملک میں داخلے کی اجازت دی گئی ہے۔
تازہ ترین پریس بریفنگ میں انہوں نے کہا کہ محکمہ خارجہ ’ایگزیکٹو آرڈرز پر کام کر رہا ہے، جس میں یہ بھی شامل ہے‘۔
یہ پوچھے جانے پر کہ تاریخ کیوں ملتوی کی گئی، انہوں نے کہا کہ میں اس بارے میں بات نہیں کر سکتی، لیکن میں آپ کو بتا سکتی ہوں کہ ہم اس پر کام کر رہے ہیں کہ ایگزیکٹو آرڈر میں کیا کہا گیا ہے جو کہ سفری پابندی نہیں ہے، بلکہ دوسرے ممالک کی پابندیوں کی نوعیت ہے، آیا وہ امریکا میں داخلے کے لیے ضروری سیکیورٹی اور جانچ پڑتال کے معیار پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔
سرخ، پیلی اور نارنجی فہرستیں
اس سے قبل امریکی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انتظامیہ ان ممالک کی 3 رنگین فہرستوں پر کام کر رہی ہے جن میں سرخ، نارنجی اور پیلے رنگ شامل ہیں، جنہیں مسافروں کی اسکریننگ کی صلاحیت کی بنیاد پر مختلف پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
لیکن محکمہ خارجہ کی بریفنگ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ فوری طور پر اس پالیسی کے نفاذ میں ممکنہ رکاوٹوں کے بارے میں قیاس آرائیوں کو تقویت ملی ہے۔
امریکی میڈیا میں آنے والی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ غیر معینہ مدت کی تاخیر انتظامیہ کے اندرونی اختلافات کی طرف اشارہ کر سکتی ہے کہ پابندیاں کس حد تک جانی چاہئیں۔
صدر ٹرمپ اپنی پہلی مدت سے ہی امیگریشن سے متعلق سخت پالیسیوں کو بحال کرنے کے بارے میں آواز بلند کرتے رہے ہیں، جس میں سفری پابندی میں توسیع بھی شامل ہے جسے سپریم کورٹ نے 2018 میں برقرار رکھا تھا، تاہم ایسا لگتا ہے کہ لاجسٹک چیلنجز، قانونی مصلحتوں اور سفارتی نتائج کے خدشات کی وجہ سے اس پر عمل درآمد رک گیا ہے۔
بیوروکریسی کے چیلنجز
ایک ممکنہ عنصر بیوروکریٹک جمود ہے، ایگزیکٹو آرڈر میں سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو، اٹارنی جنرل پام بونڈی، ہوم لینڈ سیکیورٹی کی وزیر کرسٹی نوئم اور نیشنل انٹیلی جنس کی ڈائریکٹر تلسی گیبارڈ کو ممنوعہ ممالک کی فہرست مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، لیکن عوامی رپورٹ کی کمی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یا تو اتفاق رائے نہیں ہوا یا انتظامیہ اپنے نقطہ نظر کو از سر نو ترتیب دے رہی ہے۔
ایک اور ممکنہ وجہ قانونی کمزوری ہے، اصل سفری پابندیوں کو متعدد مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور صرف اہم ترامیم کے بعد برقرار رکھا گیا، اس اعلان میں تاخیر کر کے انتظامیہ قانونی چیلنجز سے بچنے کی کوشش کر رہی ہے، یا آگے بڑھنے سے پہلے زیادہ سازگار قانونی اور سیاسی ماحول کا انتظار کر رہی ہے۔
30 سے زائد امریکی قانون سازوں نے صدر ٹرمپ پر زور دیا ہے کہ وہ متنازع سفری پابندی کی مجوزہ بحالی کو ترک کردیں کیونکہ اس سے امریکی معیشت، سفارتی تعلقات کو نقصان پہنچے گا اور قومی سلامتی کو بڑھانے میں ناکام رہے گا۔
قانون سازوں نے کہا کہ ہم آپ پر زور دیتے ہیں کہ اس انتہا پسندانہ نقطہ نظر پر نظر ثانی کریں، کیونکہ اس سے اہم معاشی، اخلاقی اور سیکیورٹی چیلنجز پیدا ہوتے ہیں، جو اس کے مطلوبہ فوائد سے کہیں زیادہ ہیں، قانون سازوں نے قومی سلامتی کی بنیاد پر سفری پابندی کے انتظامیہ کے جواز کو بھی مسترد کردیا اور اسے غیر مؤثر اور امتیازی اقدام قرار دیا۔
ممکنہ سفارتی نتائج
سفری پابندی کا التوا بین الاقوامی تعلقات کے انتظام میں احتیاط کی سطح کا بھی اشارہ دیتا ہے، جن 40 سے زائد ممالک پر پابندیاں عائد کرنے پر غور کیا گیا ان میں پاکستان، روس اور وینزویلا جیسے اہم امریکی شراکت دار بھی شامل ہیں، پیچیدہ جغرافیائی سیاسی مفادات کو دیکھتے ہوئے، حکام نے یہ طے کیا ہے کہ معاشی اور سفارتی نتائج فوری سیاسی فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔
واشنگٹن کے ساتھ دیرینہ کشیدگی کے باوجود پاکستان خاص طور پر انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں اسٹریٹجک اتحادی رہا ہے، اس تاخیر سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتظامیہ اس بات کا ازسرنو جائزہ لے رہی ہے کہ آیا اس طرح کا اقدام اس کی وسیع تر خارجہ پالیسی کے مقاصد سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔
نیویارک ٹائمز کو موصول ہونے والے مسودے میں مبینہ طور پر پاکستان کو ’اورنج‘ کیٹیگری میں شامل کیا گیا تھا، جس کا مطلب ہے کہ اس کے شہریوں کو ویزا کی منظوری کے لیے ذاتی طور پر انٹرویو سے گزرنا ہوگا، اگر مزید خدشات پیدا ہوتے ہیں تو ملک کو سب سے زیادہ پابندی والے ’سرخ‘ زمرے میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔
تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں اور اب تک کسی چیز کو حتمی شکل نہیں دی گئی ہے۔