لاہور ہائی کورٹ: انسداد ریپ ایکٹ کے نفاذ کے کیس میں اٹارنی جنرل دوبارہ طلب
لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) نے انسداد ریپ (تحقیقات اور مقدمہ) ایکٹ 2021 کے نفاذ سے متعلق ایک کیس میں معاونت کے لیے اٹارنی جنرل آف پاکستان (اے جی پی) منصور عثمان اعوان کو 14 اپریل کو دوبارہ طلب کر لیا۔
انسداد ریپ ایکٹ 2021 کا مقصد خصوصی عدالتوں کا قیام اور ریپ کیسز کی تحقیقات اور مقدمے کے دوران جدید آلات کا استعمال تھا، اسی سال اس ایکٹ کے نفاذ کی نگرانی اور موثر تعمیل کے لیے کسی بھی وفاقی یا صوبائی وزارت، ڈویژن آفس، ایجنسی یا اتھارٹی تک رسائی کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔
آج کی کارروائی لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سنی، بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس فاروق حیدر اور جسٹس علی ضیا باجوہ شامل تھے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل مرزا نصر احمد، پنجاب پراسیکیوٹر جنرل سید فرہاد علی شاہ اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔
کیس کی پچھلی سماعت میں، جسٹس نیلم نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ جنسی زیادتی کے مقدمات میں متاثرین کی شناخت کو خفیہ رکھنے کے لیے کوئی مؤثر اقدامات نہیں کیے گئے اور زور دیا کہ ان کا تحفظ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ثبوت کا تحفظ بہت ضروری ہے، اور ویڈیو/آڈیو ریکارڈنگ اور دیگر ثبوتوں کو قانون شہادت کے تحت قانونی طور پر محفوظ کیا جانا چاہیے۔
بینچ نے ملزم سلمان طاہر کی درخواست کی بھی سماعت کی، جس پر 10 سالہ بچی کو مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا اور اس نے استدعا کی تھی کہ ایک ڈاکٹر نے جعلی اور غیر قانونی میڈیکل سرٹیفکیٹ جاری کیا ہے۔
ملزم نے اپنی درخواست میں کہا کہ متاثرہ بچی کا طبی معائنہ، بشمول دو انگلیوں کا ٹیسٹ جو 2021 میں ممنوع قرار دیا گیا تھا، انسداد ریپ ایکٹ کے تحت نہیں کیا گیا۔
درخواست گزار نے عدالت سے اپنی ضمانت کی درخواست منظور کرنے کی استدعا کی۔
سماعت کا احوال
سماعت کے آغاز پر جسٹس نیلم نے پوچھا، ’ کیا آج اے جی پی عدالت میں آئے ہیں؟’
ایڈیشنل اٹارنی جنرل مرزا نصر احمد نے جواب دیا، ’ اے جی پی سپریم کورٹ میں مصروف ہیں۔’
چیف جسٹس نیلم نے کہا کہ اے جی پی کی وجہ سے پچھلی سماعت بھی ملتوی کر دی گئی تھی۔
جسٹس حیدر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا،’ یہ ایک سنگین معاملہ ہے؛ انہیں مطلع کرنا چاہیے تھا کہ وہ سپریم کورٹ میں مصروف ہیں۔ ہم کیس پڑھ کر آئے ہیں، یہ بہت اہم معاملہ ہے۔’
جسٹس حیدر نےایڈیشنل اٹارنی جنرل مرزا نصر احمد سے کہا کہ ہم آپ کے جواب سے مطمئن نہیں ہیں۔
اس موقع پر جسٹس باجوہ نے کہا کہ اگر اے جی پی کی سپریم کورٹ میں پہلے سے مصروفیات تھیں تو انہیں سماعت ملتوی کرنے کی تحریری درخواست پیش کرنی چاہیے تھی۔
جسٹس نیلم نے تبصرہ کیا، ’ اس کا مطلب ہے کہ وفاق کا ہر ادارہ اپنی مرضی کے مطابق کام کر رہا ہے۔’
جسٹس حیدر نے کہا، ’ ہم نے حکم دیا تھا کہ اے جی پی معاونت کے لیے پیش ہوں۔’
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ معروضی سطح پر اس ایکٹ کو نافذ کرنا وفاق کی ذمہ داری نہیں بلکہ صوبوں کی ذمہ داری ہے۔
جسٹس نیلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا،’ قومی میڈیا اس مسئلے کو زیادہ نمایاں نہیں کرتا، بین الاقوامی میڈیا نے اسے زیادہ اجاگر کیا ہے۔’ انہوں نے مزید کہا کہ اگر بین الاقوامی دباؤ نہ ہوتا، تو کیا یہ قانون سازی نافذ کی جاتی؟
اس کے بعد، بینچ نے عدالت کی معاونت کے لیے اے جی پی کو 14 اپریل کو دوبارہ طلب کیا۔