یوکرین میں جنگ بندی کے حامی، معاہدے سے متعلق کئی سوالات جواب طلب ہیں، روس
روس کے صدارتی محل کریملین نے کہا ہے کہ وہ یوکرین میں جنگ بندی کے خیال کی حمایت کرتا ہے، لیکن اس کے کام کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں بہت سے ’سوالات‘ ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین اور روس دونوں کے عہدیداروں کے ساتھ بات چیت کے باوجود 3 سال سے جاری تنازع میں جنگ بندی کی طرف پیش رفت نہ ہونے پر بڑھتی ہوئی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
مارچ میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ وہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ’ناراض‘ ہیں، اور اتوار کے روز صحافیوں سے کہا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ وہ رک جائیں، مجھے بمباری پسند نہیں ہے، لیکن یوکرین میں بمباری جاری ہے۔‘
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ ولادیمیر پیوٹن اس خیال کی حمایت کرتے ہیں کہ جنگ بندی کی ضرورت ہے، لیکن اس سے پہلے بہت سے سوالات کے جوابات دینے ہوں گے، یہ سوالات ہوا میں معلق ہیں، اب تک کسی نے بھی ان کا جواب نہیں دیا ہے، انہوں نے ’کیف حکومت کے بے قابو ہونے پر‘ پر مصالحت میں پیش رفت کی کمی کو مورد الزام ٹھہرایا۔
ولادیمیر پیوٹن نے مارچ میں غیر مشروط اور مکمل جنگ بندی کی امریکا اور یوکرین کی مشترکہ تجویز کو مسترد کر دیا تھا، جب کہ کریملن نے بحیرہ اسود میں امریکا کی تجویز کردہ جنگ بندی کو مغرب کی جانب سے بعض پابندیوں کے خاتمے سے مشروط کر دیا تھا۔
امریکی سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے جمعہ کے روز کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ، روس کے ساتھ نہ ختم ہونے والے مذاکرات کے جال میں نہیں پھنسیں گے، جب کہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے پیر کے روز ماسکو پر زور دیا تھا کہ وہ ’تعطل کے ہتھکنڈے‘ استعمال کرنا بند کرے۔