سپریم کورٹ کی ٹرمپ کو ملک بدری کی اجازت، پاکستانیوں سمیت سیکڑوں طلبہ کے ویزے منسوخ
امریکی سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ’ایلین دشمن ایکٹ‘ کو فی الحال نافذ کرنے کی اجازت دے دی جس سے وائٹ ہاؤس کو ایک اہم کامیابی مل گئی ہے، جس سے امیگریشن حکام کو ملک بدری کے لیے ہنگامی اختیارات پر انحصار کرنے کا موقع ملے گا۔
سی این این کے مطابق سپریم کورٹ میں زیر التوا ایمرجنسی اپیلوں میں سے ایک پر غیر دستخط شدہ فیصلے سے ٹرمپ کو 1798 کے قانون کو ہٹانے میں تیزی لانے کا موقع ملے گا، جب کہ نچلی عدالتوں میں اس قانون کے استعمال کے خلاف قانونی چارہ جوئی جاری ہے۔
سپریم کورٹ نے پر زور دیا کہ جن لوگوں کو ملک بدر کیا جاتا ہے، انہیں نوٹس ملنا چاہیے کہ وہ اس قانون کے تابع ہیں اور انہیں وفاقی عدالت کی جانب سے ہٹانے کا جائزہ لیا جائے جہاں انہیں حراست میں لیا جا رہا ہے۔
عدالت کے 3 لبرل ججز نے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور عدالت کے قدامت پسند ونگ کی رکن جسٹس ایمی کونی بیرٹ نے جزوی طور پر اختلاف کیا۔
ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پوسٹ میں اس فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ یہ ’امریکا میں انصاف کے لیے ایک عظیم دن‘ تھا۔
انہوں نے لکھا کہ سپریم کورٹ نے ہمارے ملک میں قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھتے ہوئے ایک صدر کو اجازت دی ہے کہ وہ ہماری سرحدوں کو محفوظ بنانے اور ہمارے خاندانوں اور ہمارے ملک کی حفاظت کرنے کے قابل ہو۔
اٹارنی جنرل پام بونڈی اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کی وزیر کرسٹی نوئم سمیت ٹرمپ انتظامیہ کے عہدیداروں نے فوری طور پر اس فیصلے کو سراہا، اور بونڈی نے اسے ’قانون کی حکمرانی کے لیے تاریخی فتح‘ قرار دیا۔
اٹارنی جنرل نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کہا کہ واشنگٹن ڈی سی میں ایک سرگرم جج کے پاس صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی چلانے اور امریکی عوام کو محفوظ رکھنے کے اختیار پر کنٹرول حاصل کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
امریکا کی قومی سلامتی کی وزیر کرسٹی نوئم نے مزید لکھا کہ ’صدر ٹرمپ ایک بار پھر درست ثابت ہوئے! ابھی چلے جاؤ، ورنہ ہم آپ کو گرفتار کر لیں گے، آپ کو قید کر دیں گے اور ملک بدر کر دیں گے۔‘
ٹرمپ نے اپنی ہنگامی اپیل کو عدالتی اختیارات اور خاص طور پر امریکی ڈسٹرکٹ جج جیمز بواسبرگ کے اس حکم نامے کے طور پر پیش کیا، جس میں صدر کو وینزویلا کے 5 شہریوں کے خلاف اجنبی دشمن ایکٹ کے نفاذ سے عارضی طور پر روک دیا گیا تھا، صدر کی درخواست منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے بواسبرگ کے احکام کو ختم کر دیا۔
عدالت نے اپنے غیر دستخط شدہ حکم میں واضح کیا کہ حکام کو ٹرمپ کے اعلان کے مطابق تارکین وطن کو مناسب نوٹس دینا ہوگا کہ انہیں جنگ کے وقت کی اتھارٹی کے مطابق ہٹایا جا رہا ہے، تاکہ ان کے پاس ہیبیاس کی شکایات لانے کے لیے ’مناسب وقت‘ ہو، یہ ان لوگوں کی طرف سے لائے گئے مقدمات ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں حکومت نے غیر قانونی طور پر حراست میں لیا ہے۔
تارکین وطن کی نمائندگی کرنے والے وکلا کے درمیان ایک اہم تشویش یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے اس قانون کے تحت تارکین وطن کو نکالنے کی جلد بازی کے باعث ان کے پاس اس طرح کے قانونی دعوے دائر کرنے کا کوئی وقت نہیں ہے۔
جسٹس سونیا سوتومیئر نے کہا کہ اس معاملے میں ٹرمپ انتظامیہ کا طرز عمل قانون کی حکمرانی کے لیے غیر معمولی خطرہ ہے۔
انہوں نے لکھا کہ عدالت کی اکثریت اب حکومت کو صوابدیدی مساوی ریلیف کے ساتھ اس کے طرز عمل پر انعام دے رہی ہے، یہ ناقابل دفاع ہے، ہمیں ایک قوم اور عدالت کی حیثیت سے اس سے بہتر ہونا چاہیے۔
دوسری جج بیریٹ، اگرچہ انہوں نے الگ سے نوٹ نہیں لکھا، لیکن وہ سوٹومیئر کے اختلاف رائے کے اہم حصے میں شامل ہو گئیں، جس میں یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ کیا ہیبیاس کے دعوے اس قانون کے تحت لوگوں کو ان کی جلاوطنی کو چیلنج کرنے کا واحد طریقہ ہونا چاہیے؟
عدالت کا یہ حکم بواسبرگ کی جانب سے ملک بدری کے لیے ٹرمپ کی جانب سے جنگی اختیارات کے استعمال کو غیر معینہ مدت کے لیے روکنے کے حوالے سے دلائل سننے سے ایک روز قبل سامنے آیا ہے۔
جج علیحدہ طور پر اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا ٹرمپ انتظامیہ کے عہدیداروں کو ان کے احکام کی خلاف ورزی کرنے پر توہین عدالت کا مرتکب ٹھہرانے کی ’ممکنہ وجہ‘ موجود ہے، جب اس نے گزشتہ ماہ ملک بدری کی پروازوں کو جاری رکھنے کی اجازت دی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور انتظامیہ کے دیگر عہدیدار بارہا بواسبرگ کو اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
دوسری جانب ڈان نیوز کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کی فلسطین کے حامیوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، امریکی یونیورسٹیوں میں پاکستانیوں سمیت 400 سے زائد بین الاقوامی طلبہ کے ویزے منسوخ کردیے گئے۔
جن یونیورسٹیز کے طلبہ کے ویزے منسوخ کیے گئے ان میں ہارورڈ، اسٹینفورڈ، یو سی ایل اے، یونیورسٹی آف مشی گن سمیت دیگر شامل ہیں۔ بیشتر طلبہ ویزا منسوخ ہونے کے بعد ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
امریکی حکام واضح کرچکے ہیں کہ ایسے طلبہ کے ویزے منسوخ کیے ہیں جو اسرائیل مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھے، ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ یونیورسٹیز میں توڑپھوڑ اور افراتفری پھیلانے والوں کو ویزے نہیں دیں گے۔