پی ٹی آئی کے اندورنی اختلافات شدید، کیا پارٹی ختم؟
پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) ہمیشہ لڑنے جھگڑنے کے موڈ میں ہوتی ہے۔ اس کی وجہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست محاذ آرائی یا دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ جاری مستقل کشمکش نہیں بلکہ پارٹی کی اندرونی ’ تو تو میں میں ’ ہے۔
دوسرے درجے کی لیڈرشپ حکمت عملی، بدعنوانی کے الزامات، پارٹی سے وفادار نہ رہنے اور کئی دیگر وجوہات کی بنا پر باہم دست وگریباں ہے۔ اب یہ ایک ایسی پارٹی ہے جو تقسیم ہوچکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے با اختیار حلقوں میں پیش رفت میں ناکامی کا سامنا ہے۔
وہ لوگ جنہوں نے پی ٹی آئی کے پرانے اور اچھے دن دیکھ رکھے ہیں جب پارٹی ایک بہتر مقام پر تھی، وہ جانتے ہیں کہ ان دنوں بھی پی ٹی آئی کو اپنے ہی لوگ زخم لگاتے رہتے تھے، اور یہ پہلو دیکھنے والوں کی تفریح کا سامان بنتا تھا، اور اب جب کہ اسٹیبلشمنٹ تعاقب میں ہے، اور پارٹی کے مرکزی لیڈر عمران خان بہت سوں کے ساتھ رابطے میں نہیں ہیں، پارٹی کی اندرونی لڑائی انتہا کو چُھو رہی ہے، یہاں تک کہ اس پر کسی ایکشن فلم کے اختتامی لمحات کا گمان کیا جاسکتا ہے اور یہ بولی وڈ کی ( رامسے برادرز کی مشہور زمانہ ہارر فلموں ) کی طرح پُرلطف ہے۔
حالیہ دنوں میں یہ تماشا اور بھی وسیع اور پُرلطف ہوگیا ہے، بالخصوص شیر افضل مروت کی وجہ سے جنہوں نے پارٹی سے اخراج کے بعد تنہا کھڑے ہوکر گفت و شنید کرنے کے معمول کو ’ دھماکا خیز ’ انٹرویوز کے سلسلے میں بدل دیا ہے۔
یقیناً، موجودہ ماحول میں کوئی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ انٹرویوز سرخیوں میں جگہ لینے کے لائق نہیں ہیں، کیونکہ اب سرخیوں کا خبریت سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا، تو سب لوگ اشارے پر واہ واہ کرتے ہیں کیونکہ اب ہمارا یہی انداز ہے۔ بہ الفاظ دیگر ایک منقسم پارٹی پر پہلے سے زیادہ روشنی ڈالتے دھماکا خیز انٹرویو جاری رہیں گے۔
درحقیقت، پارٹی کے اندرونی خلفشار کا شیر افضل مروت سے بھی بہتر اشارہ دوسرے درجے کے رہنماؤں پر سوشل میڈیا پر کی جانے والی تنقید دیتی ہے۔ اس کی شدت کا پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جاری محاذ آرائی سے براہ راست تعلق ہے ، اگرچہ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ پی ٹی آئی ایک فرد کی پارٹی ہے اور رہے گی جسے بے شمار لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔
تاہم 9 مئی کے بعد ہونے والے کریک ڈاؤن کے بعد اس رجحان میں اس وقت مزید شدت آئی جب ایک زیادہ مستحکم دوسرے درجے کی لیڈرشپ پریس کانفرنسوں اور ٹویٹس کے سلسلے کے بعد کم و بیش ختم ہوگئی۔ نئے چہروں نے خلا کو پُر کیا اگرچہ یہ چہرے بھی اتنے ہی مستحکم اور اتنے ہی متعلقہ ہیں جتنے کہ ان سے پہلے والے تھے، جن کے یہ متبادل ٹھہرے تھے۔ جہانگیر خان ترین سے لے کر 9 مئی کے بعد ( پارٹی سے ) راہیں جدا کرنے والوں، اور پھر موجودہ رہنماؤں تک، سب آتے جاتے رہیں گے مگر ان کے آنے اور جانے سے پارٹی کی مقبولیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
بہ الفاظ دیگر 9 مئی نے عوامی تخیل پر پی ٹی آئی کے بجائے عمران خان کی گرفت مضبوط کی ہے، کیونکہ دوسرے درجے کی لیڈرشپ جو ایک وقت میں اپنے لیے جگہ بناتی نظر آرہی تھی جیسے اسد عمر، فواد چوہدری یہاں تک کہ حماد اظہر بھی اب اتنے ہی متعلقہ ہیں جتنے کہ ٹیلی ویژن کی اسکرینوں پر نظر آنے والے وکلا ہیں۔ شان و شوکت محض ثانوی ہے۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ سب کچھ یکسر بے اثر ہے۔ اس صورتحال نے پی ٹی آئی( اور اس سے پہلے دیگر جماعتوں) کی ایک ایسی تنظیم میں ڈھل جانے کی صلاحیت کو کمزور کیا ہے جس کا شخصیات اور خاندانوں پر انحصار کم سے کم ہو، نیز ان حالات نے پارٹی کی تجربہ کار سیاستدان تیار کرنے کی صلاحیت کو بھی متاثر کیا ہے جو حکمرانی کے عمل کا بھی حصہ رہے ہوں۔
پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ( ن ) پر بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان محاذ آرائی سیاسی پارٹیوں سے زیادہ ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
تاہم ایک پارٹی کی اندرونی کشمکش اور داخلی لڑائی کی اور بھی کئی پرتیں ہوتی ہیں۔ ایک صوبائی پرت ہوتی ہے، جو ( پی ٹی آئی کے معاملے میں ) کبھی ہوا کرتی تھی مگر عمران خان کے جیل جانے کے بعد یہ پرت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ علی امین گنڈاپور وادی پشاور کے ’ پی ٹی آئی والوں’ سے اختلاف رکھتے ہیں، جو سیاسی جماعتوں سے قطع نظر، کبھی صوبے کی سیاست پر غالب تھے۔ چاہے وہ عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی) ہو، پیپلزپارٹی ہو یا پی ٹی آئی، لیڈرشپ کا تعلق ہمیشہ پشاور سے ہوتا تھا۔
موجودہ صورتحال میں جبکہ وزیراعلیٰ کا تعلق خیبرپختونخوا کے جنوب سے ہے اور عمران خان پابند سلاسل ہیں، پشاور اور ملحقہ علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کو کئی طرح سے ( پارٹی معاملات سے) دور کردیا گیا ہے۔ ایک غیرمحفوظ وزیراعلیٰ انہیں اپنی ذات اور عمران خان سے دور رکھنے کے لیے بے چین ہے۔ ان کی یہ بےچینی سوات کے جنید اکبر تک پھیل گئی ہے جو اس گروہ کے قریب نظر آتے ہیں۔
یہ علاقائی دراڑیں، سیاسی دراڑوں کے ساتھ بھی جڑی ہوئی ہیں، کیونکہ جو لوگ خود کو معاملات میں دخیل سمجھتے ہیں اور محاذ آرائی ختم کرنے کے قابل ہونے کی امید میں مذاکرات کی ابتدا کرنا چاہتے ہیں، انہیں دوسروں کی مخالفت کا سامنا ہے جو لڑائی کو جاری رکھنے کے خواہش مند ہیں۔
وزیراعلیٰ اس ’ مفاہمتی ’ گروپ میں بڑی آسانی سے ’ فٹ ’ بیٹھتے ہیں جو ان لوگوں سے ناخوش ہے جو سمجھتے ہیں کہ ’ مزاحمت ’ ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ کسی حد تک ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ان ’ من مانے’ فیصلوں کے پس پردہ ہیں کہ عمران خان سے کسے ملاقات کرنی چاہیے اور کسے نہیں۔
اسی وجہ سے، مثال کے طور پر، جنید اکبر اور تیمور سلیم جھگڑا کی متعدد کوششوں کے باوجود سربراہ تحریک انصاف سے ملاقات نہیں ہوپائی، جبکہ ماضی میں متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کا حصہ رہنے والے اور حکومت خیبرپختونخوا کے موجودہ ترجمان بیرسٹر سیف بیان پر بیان داغے چلے جارہے ہیں جن پر پارٹی کارکنان تو تنقید کرتے ہیں مگر وزیراعلیٰ نہیں۔ شاید ایک دن پارٹی میں کوئی محسن نقوی سے موازنہ کرے گا اور کف افسوس ملے گا کیونکہ پاکستانی سیاست میں پچھتاوا ہمیشہ بعد کی بات ہے۔
تاہم اس تمام صورتحال میں پاکستان تحریک انصاف ایک مانوس راستے پر گامزن نظر آتی ہے جس سے پہلے مسلم لیگ ( ن ) اور پیپلزپارٹی گزر چکی ہیں، اور یہی بات پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ سمیت دوسرے لوگوں کے لیے باعث تشویش ہونی چاہیے۔ جب موسم بدلتا ہے اور پارٹی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ اختیارات سے محروم ہوجاتے ہیں تو انہیں عضو معطل سمجھتے ہوئے سائیڈ لائن کردیا جاتا ہے۔
مخدوم امین فہیم، جو ایک دور میں وزیراعظم بننے والے تھے، جب 2008 میں پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی تو پارٹی کے سب سے ناپسندیدہ افراد میں شامل کردیے گئے۔ اسی طرح مخدوم جاوید ہاشمی، جنہوں نے مشرف دور میں مسلم لیگ ( ن ) کی سربراہی کی، میاں نواز اور شہباز شریف کی واپسی کے بعد اتنے تنگ ہوئے کہ پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی۔ پاکستانی سیاست ایک ایسا خود سر اور اڑیل جانور ہے جس پر سواری کرنا بڑے کھلاڑیوں کے لیے بھی آسان نہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیں۔