امریکی شہریت کے انٹرویو کیلئے جانیوالا کولمبیا یونیورسٹی کا فلسطینی طالبعلم زیر حراست
امریکی امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) نے ورمونٹ میں امریکی شہریت کے حصول کے لیے انٹرویو دینے کے لیے آنے والے کولمبیا یونیورسٹی کے فلسطینی طالب علم کو حراست میں لے لیا۔
ترک خبر رساں ادارے ’انادولو‘ کی رپورٹ کے مطابق محسن کے مہداوی کو ورمونٹ کے شہر کولچیسٹر میں یو ایس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز (یو ایس سی آئی ایس) کے دفتر سے حراست میں لیا گیا۔
محسن کے مہداوی فلسطینی طلبہ کے ایک گروپ کے شریک بانی ہیں، اس گروپ کی تشکیل میں فلسطینی طالب علم محمود خلیل کا بھی اہم کردار تھا۔
وکیل لونا دروبی نے حراست کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ محسن مہداوی اس امید میں امریکا آئے تھے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے بارے میں بات کرنے کے لیے آزاد ہوں گے، اور صرف اس طرح کی تقریر کے لیے انہیں سزا دی جائے گی۔
ان کے وکلا نے ہیبیاس کارپس پٹیشن دائر کی تھی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ امریکی حکومت ان کے سیاسی خیالات کی وجہ سے انہیں نشانہ بنا کر ان کے قانونی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ انہیں سرد جنگ کے دور کے امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ کے تحت ملک بدر کیا جا سکتا ہے، جو تارکین وطن کو امریکی خارجہ پالیسی کے لیے خطرہ تصور کرنے کی اجازت دیتا ہے، اور سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے فلسطینی کارکن محمود خلیل سمیت دیگر حالیہ مقدمات میں اس کا استعمال کیا ہے۔
محسن مہداوی نے اپنے اہل خانہ کی موت اور مقبوضہ مغربی کنارے میں ان کے گھروں کی تباہی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک بدری ان کی زندگی کو خطرے میں ڈال دے گی، انٹرسیپٹ نے مہداوی کے حوالے سے بتایا کہ ’یہ ایک طرح کی سزائے موت ہے‘۔
یہودی اور فلسطینی طلبہ کے درمیان پرامن مکالمے کی وکالت کرنے والے مہداوی نے 2024 میں اپنی سرگرمی میں کمی کی تھی۔
اس کے باوجود، وہ اسرائیل نواز گروہوں جیسے کینری مشن اور بیتر کی طرف سے سخت جانچ پڑتال کا نشانہ بن گئے، جنہوں نے ان پر اور دیگر پر سام دشمنی کا الزام عائد کرتے ہوئے عوامی دستاویزات مرتب کی ہیں۔
ورمونٹ کے سینیٹر برنی سینڈرز نے مہداوی کی حراست کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے تحت مناسب کارروائی کی جانی چاہیے اور محسن مہداوی کو فوری طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے انہیں حراست میں لیا ہے، انہوں نے اس بارے میں کوئی معلومات فراہم کرنے سے انکار کر دیا کہ انہیں کہاں لے جایا جا رہا ہے یا ان کے ساتھ کیا ہوگا، یہ غیر اخلاقی، غیر انسانی اور غیر قانونی ہے۔
وہ اب کولمبیا یونیورسٹی کے نویں طالب علم ہیں، جنہیں فلسطینی یکجہتی کی تحریکوں میں شامل بین الاقوامی طلبہ کو ہٹانے کی ایک بڑی مہم کے حصے کے طور پر ملک بدری کا سامنا ہے۔
یہ کوشش ایسے وقت میں کی گئی ہے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے متعدد انتظامی اقدامات کیے گئے ہیں، جن کا مقصد امریکا کے خلاف ’معاندانہ رویہ‘ رکھنے والے غیر ملکی شہریوں کو ملک بدر کرنا ہے، جن میں یہود دشمنی کے خلاف کریک ڈاؤن بھی شامل ہے۔
اس کے نتیجے میں فلسطینیوں کے حق میں کیمپس میں ہونے والے مظاہروں میں حصہ لینے والے غیر ملکی طالب علموں کو ملک بدر کر دیا گیا تھا۔
ایک امریکی امیگریشن جج نے جمعے کے روز فیصلہ سنایا تھا کہ کولمبیا یونیورسٹی کے فلسطینی حامی کارکن اور قانونی طور پر مستقل رہائشی محمود خلیل، جنہیں آئی سی ای حکام نے 8 مارچ کو نیویارک شہر میں ان کے کیمپس ہاؤسنگ سے گرفتار کیا تھا، کو خارجہ پالیسی کے خدشات پر ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔