پاراچنار میں شٹر ڈاؤن ہڑتال، شہر جانے والی واحد سڑک کھولنے کا مطالبہ
خیبرپختونخوا کے ضلع کرم کے شہر پاراچنار کے تاجروں نے سیکیورٹی کی مخدوش صورتحال کے باعث پاراچنار-تھل روڈ کی کئی ماہ سے بندش کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال کی۔
واضح رہے کہ تھل پاراچنار روڈ (جو شہر کی طرف جانے والا واحد راستہ ہے) 21 نومبر 2024 کو بگن کے علاقے میں ایک قافلے پر حملے کے بعد سے بند ہے، جس کے نتیجے میں 50 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے تھے، کئی دہائیوں پرانے زمینی تنازعات کے نتیجے میں ہونے شروع ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم 130 مزید جانیں چلی گئی تھیں۔
یکم جنوری کو کئی مہینوں کی جاری کشیدگی کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، تاہم اس کے باوجود امن قائم نہ ہو سکا اور امدادی قافلوں، سیکیورٹی اہلکاروں اور سرکاری حکام پر حملے جاری رہنے کے بعد اسے معاہدے کو دھچکا لگا۔
ٹریڈ یونین کے صدر حاجی امداد علی نے ڈان کو بتایا کہ سڑک کو دوبارہ کھولنے اور اسے سفر اور تجارت کے لیے محفوظ بنانے کے مطالبے پر زور دینے کے لیے شٹر ڈاؤن ہڑتال کی۔
انہوں نے کہا کہ شہری خوراک و علاج نہ ملنے سے مر رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس نہ تو ادویات ہیں اور نہ ہی وہ علاج کے لیے پشاور جا سکتے ہیں۔
امداد علی نے کہا کہ 27 مارچ (عید الفطر سے قبل) سے اب تک پاراچنار میں کوئی امدادی قافلہ نہیں آیا، انہوں نے مزید کہا کہ سپلائی سے لدے 300 سے زائد ٹرک ضلع ہنگو کے تھل اور دوآبہ شہروں کے درمیان گزشتہ کئی ہفتوں سے پاراچنار جانے کی اجازت کے منتظر ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ تاجر اپنا سامان پاراچنار لے جانے کے لیے ایک گاڑی کا کرایہ 10 لاکھ روپے سے زیادہ ادا کر رہے ہیں، مزید کہنا تھا کہ ہنگو میں سڑکوں پر گاڑیاں ہفتوں تک کھڑی ہیں، جن پر ہمیں یومیہ 10 ہزار روپے کا خرچہ آتا ہے۔
پاراچنار میں تاجروں اور دکانداروں کے ہمراہ ٹریڈ یونین کے رہنماؤں حاجی امداد علی، حاجی اصغر حسین ،یوسف حسین ،لیاقت کاکا جعفر حسین اور دیگر رہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی۔
تاجر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کانوائی میں ٹرکوں کو شامل کرنے کیلئے بھاری رقم لی جا رہی ہے اس وجہ سے امن معاہدے کے باوجود راستے نہیں کھولے جا رہے ہیں ضلع کرم میں تقریباً 7 ماہ سے راستوں کی بندش کے خلاف پاراچنار میں تاجر برادری نے شٹر ڈاؤن ہڑتال شروع کی ہے اور تمام بازاریں و کاروباری ادارے بند کر دیے ہیں۔
رہنماؤں نے کہا کہ راستوں کی طویل بندش سے شہری اور کاروباری لوگ تنگ آ گئے ہیں، امن معاہدہ طے پانے اور فریقین کے عمائدین کی جانب سے راستے کھولنے کے اعلان کے باوجود بعض حکام اپنے مفادات کے لیے راستے نہیں کھول رہے اور ٹرکوں کو کانواے میں شامل کرنے کے لیے بھاری رقم وصول کی جا رہی ہے۔
تاجر رہنماؤں کا کہنا تھا کہ بدامنی مافیا کے مخصوص لوگوں کے لیے منافع بخش کاروبار بن گیا ہے اور شہری خوراک و علاج نہ ملنے سے مر رہے ہیں رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ چیک پوسٹوں پر لوگوں کو تنگ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے اور آمد و رفت کے راستے جلد کھول کر عوام کو ریلیف دیا جائے۔
تاجر رہنماؤں نے راستے کھولنے تک احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ راستے کھولنے اور قیام امن کے لیے اقدامات جاری ہیں۔
گزشتہ ماہ کے آخر میں کرم میں قبائلی رہنماؤں نے عید الفطر سے قبل 8 ماہ کے امن معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔
یہ معاہدہ ایسے وقت سامنے آیا تھا، جب حکومت خیبرپختونخوا نے فروری میں کرم میں عسکریت پسندوں کے خلاف ایک تازہ آپریشن کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان ایئرپورٹ اتھارٹی اور پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی ٹیموں نے پاراچنار ایئرپورٹ کی تجارتی اور انسانی بنیادوں پر پروازوں کے لیے آپریشنل فزیبلٹی کا بھی جائزہ لیا تھا۔