• KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am

معدنیات پر نئی قانون سازی، صوبائی خود مختاری کو خطرہ؟

شائع April 18, 2025

حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والی معدنیات کانفرنس کو وفاقی حکام نے کامیابی قرار دیا لیکن اس جشن کے پیچھے ایک متنازع بحث چھپی ہوئی ہے، خاص طور پر خیبرپختونخوا (کے پی) اور بلوچستان میں۔ ایک مسودہ معدنیاتی قانون سازی کے حوالے سے، جسے مبینہ طور پر اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کی نگرانی میں تیار کیا گیا ہے۔ بلوچستان کی حکومت پہلے ہی اس بل کا ایک حصہ نافذ کر چکی ہے جبکہ کے پی ابھی غور و خوض کے مرحلے میں ہے۔

اس قانون سازی کی ٹائمنگ اور اس کے مبہم طریقہ کار نے اس کی آئینی حیثیت، مرکزیت پسند رجحانات اور ممکنہ سماجی و سیاسی اثرات پر حقیقی خدشات کو جنم دیا ہے۔ آئینی طور پر جوہری وسائل کے سوا پاکستان میں معدنی وسائل پر صوبوں کو طویل عرصے سے مکمل اختیار حاصل ہے، یہاں تک کہ اٹھارہویں ترمیم سے پہلے بھی یہی صورت حال تھی۔ اس تناظر میں وفاقی مداخلت کے خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔

کے پی کا بل اگرچہ مکمل طور پر خامیوں سے پاک نہیں تاہم اس میں صوبائی اختیار کے اہم عناصر برقرار رکھے گئے ہیں۔ وفاقی معدنیات ونگ سے متعلق اس کے حوالے صرف مشاورتی اور غیر لازمی نوعیت کے ہیں۔ لیکن ان کا شامل ہونا مستقبل میں وفاقی اختیارات میں توسیع کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس بلوچستان ایکٹ اس سے بھی آگے چلا گیا ہے۔ یہ نہ صرف وفاقی معدنیات ونگ کو معدنی ترقی، لائسنسنگ، لیز اور مالی معاملات بشمول رائلٹی پر سفارشات دینے کا اختیار دیتا ہے بلکہ بظاہر صوبے کو ان معاملات پر تجاویز پیش کرنے کا اختیار بھی سلب کرتا ہے اور اس کا کردار محض ایک غیر فعال ناظر کا بن جاتا ہے۔ اگرچہ تکنیکی طور پر یہ سفارشات لازمی نہیں لیکن قانونی طور پر وفاقی حکومت کا کردار سنگین مداخلت کا سبب بن سکتا ہے۔

کے پی اور بلوچستان دونوں کے قانونی ڈھانچے ان منصوبوں کو عارضی اجازت نامے دینے کی اجازت دیتے ہیں جو ’قومی مفاد‘ کے زمرے میں آتے ہوں۔ یہ ایک مبہم اصطلاح ہے جس میں وفاقی ملکیت والے سرکاری ادارے بھی شامل ہیں، اس قسم کی شقیں صوبائی خودمختاری کو کمزور کرتی ہیں۔

ان قوانین کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ انہوں نے کچھ اختیارات کو نئے تشکیل پانے والے صوبائی معدنیاتی اداروں اور ضلعی کمیٹیوں کو منتقل کیا ہے جو پہلے صرف سیکریٹریوں، ڈائریکٹر جنرلز اور ڈپٹی کمشنروں کے پاس ہوتے تھے۔ تاہم صوبائی اختیار میں دو وفاقی نمائندوں کو ووٹنگ کا حق دینا مسئلہ کھڑا کرسکتا ہے۔ ان افراد کو محض نگران کا کردار ادا کرنا چاہیے نہ کہ فیصلہ ساز کا۔

ان دونوں قوانین کی سب سے بڑی خامیوں میں سے ایک یہ ہے کہ ان میں مقامی کمیونٹیز، کان کنی کی تنظیموں، اور آزاد ماہرین کی بامعنی نمائندگی کا فقدان ہے۔ کان کنی جیسا پیچیدہ اور حساس شعبہ اگر صرف بیوروکریٹس اور سیاست دانوں کے سپرد کر دیا جائے تو یہ ناکامی کا یقینی نسخہ ہے۔ اسی طرح مقامی فوائد اور روزگار کی ترجیحات پر مبہم، غیر اہم دفعات بھی انتہائی قابل اعتراض ہیں۔ ان کی جگہ ایسے قانونی، واجب العمل فریم ورک کی ضرورت ہے جو کمیونٹی کی شمولیت، وسائل کی تقسیم اور مقامی ملکیت کو یقینی بنائیں۔ مختصر یہ کہ جہاں کے پی کا بل صرف معمولی ترامیم کا محتاج ہے، وہیں بلوچستان کا قانون منسوخ کیا جانا چاہیے کیونکہ اس میں ایسی دفعات شامل ہیں جو بعض اختیارات عملی طور پر وفاق کو سونپ دیتی ہیں۔

اس سے بھی زیادہ تشویش ناک پہلو وہ طریقہ کار ہے جس کے تحت یہ قانون سازی تیار اور نافذ کی گئی۔ ایس آئی ایف سی جو ایک غیر آئینی ادارہ ہے، نے اس عمل کی قیادت کی اور وہ بھی بظاہر بہت کم شفافیت کے ساتھ۔ ایسے ماحول میں جہاں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سیاسی حیثیت اور جواز پر پہلے ہی سوالات اٹھ رہے ہوں، وہاں یہ اوپر سے نافذ کیا گیا ماڈل نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ طرزِ عمل عوامی اعتماد کو مزید مجروح کر سکتا ہے اور صوبائی ناراضی کو ہوا دے سکتا ہے، چاہے قانونی طور پر یہ معاہدے درست ہی کیوں نہ ہوں۔

کان کنی ایک طویل المدتی شعبہ ہے۔ یہ سیاسی استحکام، پالیسی کے تسلسل اور سماجی قبولیت کا تقاضا کرتا ہے لیکن پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کا طرزِ عمل انتہائی قلیل مدتی ہے، جو طویل مدتی منصوبہ بندی کے بجائے فوری فائدے اور کرائے پر مرکوز ہے۔ ماضی کے تجربات ریکوڈک اور آئی پی پیز اس بات کا ثبوت ہیں کہ جلد بازی میں بغیر شفافیت کے کیے گئے معاہدے بالآخر قانونی تنازعات یا بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔ تکنیکی اعتبار سے بھی ملک کے پاس ایسے ادارہ جاتی وسائل اور مالیاتی صلاحیت کا فقدان ہے جو سرمایہ کاروں کے مفاد اور عوامی بھلائی کے درمیان توازن قائم کر سکے۔ موجودہ حالات میں قوی امکان ہے کہ کوئی بھی بیرونی حمایت یافتہ معاہدہ طویل مدتی ترقی کے بجائے مختصر المدتی مفاد کو ہی فروغ دے گا۔

اسی طرح کان کنی میں مقامی آبادی کو فوائد پہنچانے کا ہمارا ریکارڈ انتہائی ناقص ہے۔ کارپوریٹ سماجی ذمہ داری زیادہ تر رسمی دکھاوا ہی رہی ہے، جس سے متاثرہ آبادیوں کو شاذ و نادر ہی کوئی حقیقی فائدہ پہنچا ہے۔ اس رجحان کو تبدیل کرنے کے لیے نئے قوانین میں کچھ خاص نہیں۔ یہاں ایک مکمل ماڈل کی از سر نو تشکیل کی ضرورت ہے۔ ایسا ماڈل جو مقامی برادریوں کو فیصلہ سازی اور آمدنی کی تقسیم کے مرکز میں رکھے۔ صوبائی خود مختاری اور عوامی ملکیت کو یقینی بنانے کے لیے درج ذیل اقدامات ناگزیر ہیں:

1. پہلے امن اور اتفاق رائے: کوئی بھی غیر ملکی سرمایہ کار اس وقت تک مربوط انداز میں کام نہیں کر سکتا جب تک امن، سیاسی استحکام اور صوبائی حمایت نہ ہو۔ بلوچستان میں سی پیک کا تجربہ ایک واضح انتباہ ہے۔

2. وفاقی مداخلت کا خاتمہ: وفاقی معدنی ونگ کا ہر حوالہ قانون سے حذف کیا جانا چاہیے ۔ اس کی جگہ ایک ’بین الصوبائی معدنیاتی رابطہ کونسل‘ قائم کی جا سکتی ہے جو پالیسی میں ہم آہنگی پیدا کرے مگر صوبائی خود مختاری کو برقرار رکھے۔

3. کمیونٹی کی رضامندی لازمی: تمام بڑے پیمانے پر کان کنی کے منصوبوں کے لیے مقامی کمیونٹی کی آزاد، پیشگی اور مکمل معلومات پر مبنی رضامندی قانونی طور پر لازمی قرار دی جائے۔

4. آمدنی کی شراکت کمیونٹی کے ساتھ: کم از کم 5 فیصد رائلٹی براہ راست ان اضلاع کو دی جائے جہاں سے معدنیات نکالی جارہی ہیں، جو صوبائی رائلٹی کے علاوہ ہو۔

5. روزگار کی ضمانتیں: کان کنی سے متعلق قانون لازمی قرار دیا جانا چاہیے تاکہ غیر ہنر مند ملازمتوں میں 100 فیصد مقامی افراد کو بھرتی کیا جاسکے اور ہنر مند شعبوں میں کم از کم 50 فیصد مقامی افراد کو جسے 10 سال میں 90 فیصد تک بڑھایا جائے۔

6. صوبائی معدنی دولت و ترقیاتی فنڈ قائم کیا جائے: سخت مالیاتی اور آزاد نگرانی کے تحت ایک صوبائی فنڈ جس میں 25 سے 40 فیصد رائلٹی کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ رکھا جائے، ایک کمیونٹی ترقیاتی فنڈ جس میں 5 فیصد ضلعی رائلٹی، 3 سے 5 فیصد کمپنی منافع اور دیگر وسائل کو مقامی انفرااسٹرکچر اور سروسز میں سرمایہ کاری کے لیے اکٹھا کیا جائے۔

7. شفافیت کو پالیسی بنایا جائے: تمام کان کنی کے لائسنس اور معاہدے بشمول ریکوڈک اور سیندک کو مکمل طور پر ظاہر کیا جائے، ان کمپنیوں کی نشاندہی کی جائے جو سیاسی طور پر اثر و رسوخ رکھنے والے افراد سے منسلک ہوں اور رائلٹی، پیداوار، ٹیکس، اور سماجی اخراجات کے حوالے سے مفصل اور الگ الگ اعداد و شمار باقاعدگی سے شائع کیے جائیں۔

پاکستان ایک چوراہے پر کھڑا ہے، یا تو ہم مبہم، مرکزیت پسند، اور آمرانہ وسائل کے نظم و نسق کی ماضی کی غلطیاں دہرا سکتے ہیں یا ہم کان کنی کو ایک جامع، جمہوری اور کمیونٹی کی زیر قیادت ترقی کا ذریعہ بنا سکتے ہیں۔ اگر اصلاحات کو شفافیت، جوابدہی اور صوبائی و عوامی حقوق کے احترام کی بنیاد پر استوار نہ کیا گیا تو پھر کوئی کانفرنس، چاہے جتنی بھی خوشنمائی سے پیش کی جائے دیرپا خوشحالی نہیں لا سکے گی۔

یہ تحریر انگریزی میں پڑھیں۔

رفیع اللہ کاکڑ

لکھاری بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پبلک پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ اسپشلسٹ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 30 اپریل 2025
کارٹون : 29 اپریل 2025