ہندوستان میں فاشزم؟
فاشزم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک سنہرے ماضی کی تخلیق کرلیتا ہے- ایک ایسے دور کی فرضی روایات کومستقبل میں زندہ کرنا اور اس کی تشہیر کرنا اس کے رہنماؤں کا ایک مقصد و مدعا بن جاتا ہے تاکہ ان کے پیروکار اپنے خیالات کے اظہار میں ایک پرتشدد رویہ اختیار کریں-
ہٹلر اور مسولینی اس شاندار ماضی کی بات کرتے تھے لیکن اس کی بھی ایک حد ہوتی تھی گرچہ کہ غیر معقول ہی سہی مگر جس کو وہ پار نہیں کرتے تھے- ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے یہ کام اپنے زیر اثر ہندوستانیوں کے لئے چھوڑ دیا تھا اور اس لئے چھوڑا تھا کہ ان دونوں یوروپیینوں کو پتہ تھا کہ ہندوستانی انہیں مایوس نہیں کرینگے-
بیسویں صدی کے شروع کے یورپ میں ان کی دائیں بازو کی تحریکوں کی نقل میں اگرچہ کہ ان کا تعلق انکے مقاصد سے مربوط نظر نہیں آتا تھا، لیکن ہندوستانی فاشسٹوں نے عالمی پیمانے پر شرارت آمیز واہموں کی تخلیق کرنے کی کوششیں شروع کردیں-
سب سے پہلے تو انہوں نے یہ ثابت کرنے کی ضرورت محسوس کی کہ تمام تہذیبوں کی شروعات ہندوستان کی سرزمین سے ہوئی تھی اور پھر وہ دنیا بھرمیں پھیلیں نہ کہ اس کے برعکس-
البیرونی جو کہ دسویں صدی کے اواخرکا ایک مشہور تاریخ داں گزرا ہے جس کا تعلق خراساں سے تھا مایوسی کے ساتھ لکھتا ہے کہ کس طرح ہندیوں نے جن سے وہ ہند میں طویل سیاحت کے دوران ملتا رہا تھا ہمیشہ یہ دعویٰ کیا کہ "کوئی بادشاہ ان کے بادشاہ جیسا نہیں اور نہ ہی کوئی مذہب ان کے مذہب جیسا ہے"
اس جذبہ کو زندہ رکھنے کے لئے ویگنر کے اس نظریے کو بھی کہ براعظم آہستہ آہستہ حرکت کرتے ہیں اس خیال کے تابع کردیا گیا کہ ہلکے رنگت کی جلد والے ہندوستان کے اس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں جو بہار اور اڑیسہ کی سرحدوں پر واقع ہے- بعد میں وہ سرحد قطب شمالی سے جاکر مل گئی جس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ قفقاز اور وسطی ایشیا کی نسلیں ہندوستان سے نکل کر اپنی موجودہ جائے رہائش پر پہنچی تھیں نہ کہ اس کے برعکس-
چلئے یہ فرض کرلیجئے کہ ایسا کرنا اس لئے ضروری تھا کہ مہاراشٹر کے ہلکی آنکھوں کی رنگت والے چت پاون برہمنوں ( Chitpawan Brahmins) کو جنہوں نے بیسویں صدی کے آغاز میں فاشسٹ محرکات کو ہوا دی تھی ایک بنیاد فراہم کی جائے-
یہ اپنی سرزمین کے حقیقی فرزند تھے نہ کہ غیر ملکی، یہ ویگنر کے نظریے کی مسخ شدہ شکل تھی-
اپنی مشہور کتاب (We or our Nationhood Defined) میں راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے ایک معتبر رہنما نے بر اعظموں کی حرکت (Continental Drift) کے اس نظریے کا دفاع کیا ہے-
یہ وہی گروپ ہے جس نے نریندر مودی کو وزیر اعظم کے منصب کے لئے نامزد کیا ہے- اپنی بکواس میں اڈولف ہٹلر کے اس رویے کی بھی تعریف کی ہے جو اس نے یہودیوں کے بارے میں روا رکھا تھا اور ہندووُں کو بھی اکسایا ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہی رویہ اختیار کریں-
اس بارے میں کوئی پاگل ہی ہوگا کہ جو اس ہندوستانی جارحانہ گیت پر جھومے جو ایک فرضی روایت ہے ---- جس کی جڑیں سنہرے ماضی کے افق میں پیوست ہیں-
"جہاں ڈال ڈال پرسونے کی چڑیا کرتی ہے بسیرا- وہ بھارت دیش ہے میرا "
ایک ہندی بولنے والے راجہ پورس، جسے دھرتی کے بیٹے کی حیثیت دی جاتی ہے، فارسی آمیز اردو بولنے والے مقدونیہ کے سکندر کا مقابلہ کرتا ہے جو فلم سکندر اعظم میں ایک غیرملکی ہے- 1970 کی دہائی میں بنی ہوئی اس فلم میں بڑی چالاکی سے ہندی اور اردو کو ایک دوسرے سے مد مقابل زبانوں کے طور پر دکھایا گیا ہے حالانکہ یہ دونوں ہی اس دور میں نہیں بولی جاتی تھیں-
حال یا مستقبل میں شرارت پیدا کرنے کے لئے ماضی کو استعمال کرنے کی کوششیں یہیں پر ختم نہیں ہوتیں- فلم اپکار میں جو باکس آفس پر کامیاب ہوئی ہے اسی قسم کا ایک گیت شامل ہے جس میں ایک تاجر پیشہ شخص کے قومیت کے جذبے کو اجاگر کرنے کے لئے کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے کھیتوں میں سونا اور ہیرے جواہرات اگتے ہیں-
میرے ایک چچا نے جو اب نوے سال سے زیادہ عمر کے ہیں حال ہی میں مجھے بتایا کہ اس مصرعے کے پیچھے کسی احیاء پسند ہندو کا ہاتھ نہیں تھا بلکہ یہ شرارت بائیں بازو کے شاعر مجروح سلطان پوری کی تھی-
انہوں نے یہ گیت کسی فرضی ماضی میں ڈوب کر نہیں لکھا تھا بلکہ ایک تصوراتی سوشلزم کے جذبے کے تحت اپنی مترنم آواز میں پڑھا تھا-
"اہل دل اگائیں گے کھیت میں مہ و انجم اب گہر سبک ہوگا ایک جو کے دانے سے"
اس پر مجاز لکھنوی نے جو عادتاً پیچھے کی بنچوں پر بیٹھتے تھے اور ہوٹنگ کرتے تھے مجروح کا مذاق اڑایا "بھیا پھر ہم لوگ کھائیں گے کیا!" جس پر سب لوگ ہنس پڑے-
فکرانگیز سوالات کرنا فاشزم کا مزاج نہیں ہے لیکن خلاف عقل باتیں کرنا اس کا خاصہ اور توہین آمیز الفاظ استعمال کرنا اس کا طرہ امتیاز ہے-
حال ہی میں میری بیٹی نے غالباً شرارتاً مجھے ہندوستان کی تاریخ پر ایک کتاب دی۔ 'لکھنؤ کی امام بارگاہیں ہندووُں کے محلات تھے' یہ اس کتاب کا نام تھا- اس کے مصنف پی این اوک ایک جذباتی خود ساختہ مورخ کے طور پر جانے جاتے ہیں- انہوں نے پہلے بھی اور گھٹیا کتابیں لکھی ہیں کہ تاج محل پہلے کوئی مندر تھا وغیرہ وغیرہ-
لکھنؤ کی امام بارگاہ کے بارے میں اس کتاب کے سرورق پر ان کے زرخیز ذہن کی پیداوار ایک اور کتاب کا اشتہار ہے- کرسچینیٹی اصل میں کرشن-نیتی ہے- مصنف اپنے اس شاہکار میں انکشاف کرتا ہے-
"یہ کتاب ہماری معلومات میں یہ اضافہ کرتی ہے کہ کرسچینیٹی دراصل ہندو، سنسکرت کی اصطلاح کرسن نیتی سے ماخوذ ہے یعنی وہ طرز زندگی جس کا پرچار ہندو اوتارلارڈ کرسن نے کیا اور اس کا نمونہ بن کر دکھایا تھا- انہیں کرشن، کرسن، کریسن، کرسنا اور کرشنا کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے" مسٹر اوک لکھتے ہیں-
میں سمجھ سکتا ہوں اگر آپ اس کتاب کو پڑھنے کے موڈ میں نہیں ہیں- لیکن یہ اور اسی قسم کی کہانیاں ہیں جو ہندوستان میں مذہبی احیاء کا سبب بن رہی ہیں جو مودی کا سا نقطہ نظررکھنے والے ان پڑھ اور بھولے بھالے عوام کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں-
لکھنؤ کی امام بارگاہ کے بارے میں آپ کی معلومات یہی ہونگی کہ اسے نواب آصف الدولہ نے جنہوں نے 1775 سے 1797 تک اودھ پر حکومت کی تھی اپنے دور حکومت میں بنوایا تھا- اس طرح یہ عمارت بنی- لیکن مسٹر اوک یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ایک قدیم ہندو محل تھا "رامائن کے وقتوں کا-"
ہندوستان میں مذہبی احیاء اور اسکے کزن ہندو فاشزم کے بارے میں جو بات خطرناک ہے وہ یہ ہے کہ اس بات سے سارے صحافی اور دانشوروں کو کوئی پریشانی نہیں ہے اور سب ان کے دفاع کے لئے دوڑ پڑے ہیں، بلکہ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان میں کارپوریٹ مفادات کے لوگ بھی شامل ہیں-
ان کے واضح نظریات کی اہمیت کو گھٹا کرپیش کرنے کی غرض سے بعض لکھاریوں نے ان کو مارگریٹ تھیچر سے تشبیہ دی ہے- فرق صرف اتنا ہے کہ مارگریٹ تھیچرنے کبھی یہ نہیں کہا کہ اس دنیا میں کسی (Unicorn) (گھوڑے کی شکل اور انسانی سر والا افسانوی جانور) کا کبھی کوئی وجود تھا-
ترجمہ: سیدہ صالحہ