چند ہیروز کی تلاش

جب ہندوستان اور پاکستان کے سابقہ اور موجودہ آرمی جنرل یہ کہتے ہیں کہ ان کے سامنے "بہت سے" راستے کھلے ہیں جو وہ اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں تو وہ بھونڈے پن اور بدنیتی سے ان ایٹمی ذخائر کی طرف اشارہ کررہے ہوتے ہیں جسے انھیں خفیہ طریقے سے حاصل کئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا-
جب انتہا پسند سیاستدان اپنے قومی بیانات میں اشاروں کنایوں میں یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی فوج سے کتنی کھوپڑیوں کی توقع کرتے ہیں جو وہ مخالفین کی صفوں سے لائیگی تو وہ ہم میں سے کچھ کو نہ صرف اس فرسودہ ذہنیت کی پیش افتادگی پر منت سماجت کرتے دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ وہ ہمیں اسٹینلی کبرک کے ناقابل فراموش کردار ڈاکٹر اسٹرینج لو کی بھی یاد دلاتے ہیں - یہ وہ انسان تھا جس نے "پریشانیوں کو بالائے طاق رکھ کر بم سے محبت کرنا سیکھ لیا تھا"
اگر آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ حالیہ سانحات کے پس منظر میں میں مبالغہ آرائی سے کام لے رہا ہوں تو آپ کو آزادی ہے کہ آپ مجھے ایسا بزدل، دل گرفتہ شخص سمجھ لیں جو امن کا جویا ہے لیکن میں کسی بینک کی حفاظت کرنے والا ایسا گارڈ بننے کا خواہشمند بھی نہیں ہوں جو ایک ہاتھ میں گرینیڈ لیکر کسی ممکنہ چور کا راستہ روکنا چاہتا ہے-
گو کہ یہ بات لائق مذمت ہے جسے مبینہ طور پر کہا جارہا ہے کہ پاکستانیوں نے ہندوستانی سپاہیوں کے سر قلم کر دئے جسکے نتیجے میں موجودہ فوجی بحران پیدا ہوا ہے- حقیقت تو یہ ہے کہ دونوں ممالک کی افواج اس قسم کے واقعات میں ملوث رہی ہیں-
ہندوستان کی ممتاز ٹی وی اینکربرکھا دت سے امید ہے کہ اس موقعہ پر کچھ کہہ کر اپنے ملک اورصحافی برادری کی بڑی خدمت انجام دینگی - انہوں نے عینی شاہد کی حیثیت سے کارگل کی جنگ پر درج ذیل بیان دیا تھا جس سے کم وبیش اس روایت کی توثیق ہوتی ہے کہ بد قممتی سے دشمن کے سر قلم کرنے کی روایت سرحد کے دونوں طرف موجود ہے اورغالبا دیگر ممالک میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں- میں رائیٹر- ایکٹوسٹ شدھا برتا سین گپتا کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے برکھا دت کے مضموں کا حوالہ دونگا جو جون 2001 میں ہمال نامی جریدے میں شائع ہوا تھا-
"مجھے تین مرتبہ دیکھنا پڑا تاکہ مجھے یقین ہو سکے کہ میں واقعی وہی کچھ دیکھ رہی ہوں جو مجھے نظر آرہا ہے- ایک چھوٹی سی گلی میں فوج کے انتظامیہ کے دفاتر کے پیچھے اپنے ایک گھٹنے کے بل کھڑی میں ایک زنگ آلود ٹین کی چادر میں بنے ہوئے ایک سوراخ سے جھانک رہی تھی- پہلی نظر میں تو مجھے وہاں صرف چند پتے نظر آئے- میں نے اپنی آنکھوں پر زور ڈالا تو ہرے پتوں کے درمیان مجھے کوئی کالی سی چیز نظر آئی، مونچھیں لگ رہی تھیں 'دوبارہ دیکھو' آرمی کرنل نے مجھ سے کہا- ان کے لہجے میں دبا ہوا ہیجان تھا- اس بار میں نے واقعی دیکھ لیا- یہ کسی کا سر تھا- یہ کسی مقتول سپاہی کا تن سے جدا کیا ہواچہرہ تھا جسے ایک درخت سے ٹھونک دیا گیا تھا "یہ سپاہیوں کی طرف سے بریگیڈ کیلئے ایک تحفہ تھا" کرنل نے آہستگی سے لیکن فخریہ لہجے میں کہا-
گزشتہ ہفتے جب اس افسوسناک رزمیہ داستان کا اعادہ کشمیر میں لائین آف کنٹرول پرہوا جہاں فوج کی بھا ری تعداد موجود ہے اور خطرہ یہ تھا کہ حالات قابو سے باہر ہو جائینگے اور اس میں ابھی تک کمی بھی نہیں آئی ہے تو مئی 2002 کی یادیں ذہن میں لوٹ آئیں- مجھے یاد آیا کہ کس طرح دہلی میں سفارتی رہائشی علاقہ ویران نظر آرہا تھا اور ایٹمی خطرے کے پیش نظر اسکی غاروں کی طرح گہری عمارتیں اپنے بیشتر سفارتکاروں، جاسوسوں اور مہمان نواز پی آر کے عملے سے خالی ہو چکی تھیں-
یہ واقعہ ہندوستانی پارلیمنٹ پر ہونے والے ایک حملے کے بعد پیش آیاتھا- جو بھدے طریقے سے کیا گیا تھا- اسوقت ہندوستان کے وزیراعظم نے الزام لگایا تھا کہ اسکا ذمہ دار پاکستان ہے اورانہوں نے ایک فیصلہ کن جنگ کا اعلان کیا تھا - فوج کو سرحدوں پرمنتقل کردیا گیا ، جنگی جہازوں میں ایندھن بھرا جانے لگا اوروہ اڑنے کیلئے تیارکھڑے تھے - لیکن شکرہے کہ بات یہں پرختم ہو گئی - دو سال بعد وزیراعظم نے اسلام آباد کا دورہ کیا - انکا یہ اقدام انکے اعصاب شکن الٹی میٹم کے بعد کافی حوصلہ افزا تھا -
عالمی سطح پر دباؤ پڑ رہا تھا کہ اس جنگی صورت حال کو ختم کیا جائے لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ جنگ پر آمادہ دونوں فریقین کے درمیان یہ احساس موجود تھا کہ دونوں ہی کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں اور دونوں ہی ممالک کیلئے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ وہ اس بحران کو ہوا دیں - ان تباہ کن حالات کے بعد توازن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے سوائے اسکے کہ ہندوستان نے پاکستان میں اپنی روایتی فوجی برتری کو بڑھاوا دینے کیلئے غیر معمولی رقم صرف کی ہے ، جبکہ پاکستانی فوج میدان جنگ میں استعمال ہونے والے ایٹمی ہتھیاروں کو تیار کرنے میں غیر دانشمندی سے کام لیتے ہوئے سرمایہ کاری کر رہی ہے تاکہ ہندوستان کی طرف سے لاحق ہونے والے خطرے کو غیر موثر کیا جاسکے -
تجربہ کار ماہرین کا کہنا ہے کہ ان دونوں کیلئے کوئی بھی طریقہ ان کے دفاع کا موثر ذریعہ ثابت نہیں ہو سکتا -
لیکن ایٹمی ہتھیار ہندوستان میں بھی موجود ہیں اور پاکستان میں بھی - اور صرف ایک ڈاکٹر اسٹرینج لو جیسے کردارکی ضرورت ہے اور بس - پچھلے ہفتہ ٹیلی ویژن پر فوں فاں کرنے والا کوئی بھی جعلی - قوم پرست یہ کام کر دکھا سکتا ہے - جیسا کہ گزشتہ ہفتے یکے بعد دیگرے دہلی کے ٹی وی چینلز بار بار دشمن کے خلاف اپنے دل کا بخار نکا ل رہے تھے (کرکٹ سیریز میں اس سے شکست کے بعد ) تو مجھے وہ محاورہ یاد آگیا جس کے مطابق کہا جاتا ہے کہ دونوں ہی فریقین کی انگلیاں بندوق کی لبلبی پررکھی ہیں - خیال یہ کیا جاتا ہے کہ یہ ایک دوسرے کی ایٹمی طاقت کو ، جس سے دونوں ہی خوفزدہ ہیں ، ناکام بنانے کی چا ل ہے -
یہی وہ خوف ہے اوراسکے ساتھ ساتھ ممکنہ غلط اندازے جس کے خوفناک نتائج کی قیاس آرائی بھی مشکل ہے مجھے فوری طورپراکساتی ہے کہ میں نہ صرف برکھا دت کو دعوت دوں کہ وہ اسوقت اس فضا کو صاف کریں بلکہ مجھے ہندوستان اور پاکستان میں مورڈچائی ونونو جیسے ہیرو کی تلاش ہے - اسرائیل کے اس ایٹمی سائنسدان نے اسرائیل کے خفیہ ایٹمی ہتھیاروں کے منصوبوں کا راز فاش کر دیا تھا - ونونو کو اپنے ایٹمی - مخالف نظریات کا دفاع کرنے کے نتیجے میں بھا ری سزابھگتنی پڑی اور اگرچہ انکی طویل المدت جیل کی سزا ختم ہو چکی ہے انھیں عوام کی نظروں سے پراسرار طور پر دور رکھا جا رہا ہے -
ایٹمی ہتھیاروں کی جانب انکے محتاط رویہ کے باوجود غلطیوں کے غیر متوقع امکانات کے پیش نظر اگر ہندوستان یا پاکستان اتفاقی طور پر کسی بے ضرر حرکت کو غلط معنی پہناتے ہوئے اسے دشمن کی جانب سے حملہ سمجھ لیتے ہیں تو میں ہمیشہ یہ سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ کیا کوئی ا سٹائن سلاوجیو گرافو وتش پٹروف جیسا شخص کسی بھی ملک کی اسٹراٹیجک کمانڈ کے گوشے میں کہیں موجود ہے جو ہمیں اس قیامت سے جو ٹوٹ پڑنے کیلئے تیار ہے، محفوظ رکھ سکے؟
پٹروف سوویت فوج کے سابق رکن تھے لیکن انہوں نے خود کچھ نہیں کیا ----- اور یہی ہے اصل بات-
1983 میں وہ لفٹیننٹ کرنل تھے اور انھیں امریکہ پر سوویت یونین کے سیٹلائٹس کو مونیٹر کرنے اور کسی بھی ناجائز فوجی ایکشن کی سرگرمیوں کا پتہ چلانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی- ایک دن جبکہ امریکی - سوویت ایٹمی بے اعتمادی اپنی انتہا پر تھی انکا اسکرین سرخ ہو گیا جو یہ ظاہر کرتا تھا کہ امریکہ نے مزائل حملہ کر دیا ہے- پٹروف نے اپنے اوسان بجا رکھے، انہوں نے ایٹمی بٹن نہیں دبایا اور دنیا کو وقت سے پہلے ختم ہونے سے بچالیا-
ہمیں ایسے ہی چند ہیروز کی ضرورت ہے - اب وقت ہی ایسا ہے .
ترجمہ . سیدہ صالحہ .
تبصرے (1) بند ہیں