• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:09pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:09pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:27pm

!بھگت سنگھ نامنظور

شائع March 27, 2013

فائل فوٹو
فائل فوٹو

’ہمیں آزادی نہیں چاہیے، ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیے جس میں انگریز حکمرانوں کی جگہ مقامی اشرافیہ لے لیں۔ ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیے جس میں استحصال اور غلامی کا یہ ذلت آمیز نظام قائم رہے۔ ہم ایسی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جو سارے نظام کو انقلابی تبدیلی کے ذریعے بدل کر رکھ دے‘۔

یہ زریں الفاظ مارچ 1940 میں منعقدہ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے کسی مقرر کے نہیں، نہ ہی ان الفاظ کو مارچ 2013 کے ’سونامی‘ میں شامل کسی راہنما نے ادا کیا۔ ان الفاظ کو ادا کرنے والا شخص، برصغیر کی آزادی میں نمایاں کردار ادا کرنے والا ایک سپاہی تھا، جس نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے اپنی جان نچھاور کر دی۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ جس وقت مینار پاکستان کے سائے تلے تبدیلی کے علم بردار فن تقریر کے جوہر دکھا رہے تھے، عین اسی وقت لاہور کے ایک دوسرے حصے میں چند افراد ’سرفروشی کی تمنا‘ رکھنے والوں کی یاد تازہ کر رہے تھے اور ان کو نہ صرف گالیوں سے نوازا گیا بلکہ ہاتھا پائی کی بھی بھرپور کوشش کی گئی۔

طوفان بد تمیزی برپا کرنے والے، ’اسلامی تشخص‘ کے ان ٹھیکے داروں نے بینر اٹھا رکھے تھے جن میں سے ایک کے مطابق ’شادمان فوارہ چوک کو بھگت سنگھ کے نام سے منسوب کرنے کی جسارت پر ہم بھرپور احتجاج کرتے ہیں‘۔

جمہوریت کا تقاضا تو یہ ہے کہ پرامن احتجاج کی آزادی شہریوں کو حاصل ہے، لیکن مخالفین پر تشدد کی اجازت کوئی قانون نہیں دیتا۔ اسی روز اخبار میں خبر چھپی کہ؛ 

’بھگت سنگھ کے چاہنے والے فوارہ چوک کا رخ نہ کریں، ہم کسی صورت بھگت سنگھ کو اہل اسلام اور اہل پاکستان کا ہیرو بننے کی اجازت نہیں دیں گے -- منجانب بھگت سنگھ نامنظور ایکشن کمیٹی‘

ان جاہلوں نے کبھی تاریخ کا سرسری سا مطالعہ بھی کیا ہوتا تو انہیں چند بنیادی حقائق کا اندازہ ہو جاتا۔ پہلی عرض تو یہ کہ ہیرو بننے کے لیے کسی بھی انسان کو شادمان کی تاجر برادری کا سرٹیفیکٹ نہیں چاہیے بلکہ تاریخ خود اس چیز کا تعین کرتی ہے۔

دوسری بات یہ کہ بھگت سنگھ نے کبھی کسی مذہب کی حمایت کا دعوی نہیں کیا بلکہ وہ تو مذہب کی بنیاد پر تفریق کا سخت مخالف تھا۔

بھگت سنگھ نے برصغیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کی، کسی مخصوص فرقے یا مذہب کی آزادی کے لیے نہیں۔ اگر بھگت سنگھ شادمان کے شاہینوں کی طرح تنگ نظر ہوتا تو کبھی ایک ہندو راہنما لالہ لاجپت رائے کے قتل کا انتقام نہ لیتا، نہ ہی گاندھی کی مخالفت کرتا۔ اور یاد رہے کہ یہ لالہ لاجپت رائے وہی صاحب تھے جن کا ایک خط جناح صاحب نے 23 مارچ 1940 کی اپنی تقریر میں پڑھا۔ اس خط میں لالہ جی نے لکھا تھا کہ میں مسلمانوں کی تاریخ اور فقہ پڑھ کر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہندو اور مسلمان اکٹھے نہیں رہ سکتے اور ہمیں اب کوئی راہ نجات نکالنی چاہیے۔

یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہماری نصابی کتابوں سے محض سطحی اختلافات کی بنا پر بر صغیر کی تاریخ کے اہم کرداروں جیسے بھگت سنگھ، لالہ لاجپت رائے اور سبھاش چندر بوس کو نکال باہر کیا گیا۔ ابن خلدون نے کہا تھا کہ تاریخ کا کوئی مذہب یا عقیدہ نہیں ہوا کرتا، لیکن اس بات کا خیال ہمارے ارباب بست و کشاد کو کبھی نہیں آیا۔

تاریخ کا جنازہ صرف شادمان چوک تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ مینار پاکستان کے سائے تلے بھی تاریخ کی آرتی جلائی گئی۔ کے کے عزیز صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ہمیں قرارداد لاہور سے متعلق تاریخ غلط پڑھائی جاتی ہے کیونکہ آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس 24 مارچ تک جاری رہا اور طریق یہ ہے کہ کوئی بھی قرارداد اجلاس کے آخری روز پیش کی جاتی ہے۔

23 مارچ 1940 کو جناح صاحب نے تقریر تو ضرور کی لیکن قرارداد لاہور 24 مارچ کو پیش کی گئی۔

سونامی پارٹی نے اپنے ’تاریخ ساز‘ جلسے کے میدان کو پانی پت سے تشبیہ دی تھی۔ تاریخ کے طالب علم واقف ہیں کہ پانی پت کے میدان میں تین بڑی جنگیں لڑی گئیں۔ سب سے پہلے وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والے تیموری النسل بادشاہ بابر نے 1526 میں ابراہیم لودھی سے جنگ کی۔

پانی پت کے مقام پر دوسری بڑی جنگ 1556 میں بابر کے پوتے، شہنشاہ اکبر نے راجا ہیمو کے خلاف لڑی۔ اس مقام پر تیسری بڑی جنگ افغان بادشاہ احمد شاہ ابدالی نے مرہٹہ سرداروں کے خلاف لڑی۔

ہمیں کوشش کے باوجود اس دن کسی اخبار یا نشریاتی ادارے کی خبروں میں جلسے کے دوران کسی طرز کی لڑائی کا تذکرہ نہیں ملا۔ چند خواتین نے البتہ یہ شکایت ضرور کی کہ بارش کے باعث بھگدڑ مچنے کا چند من چلوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا اور اس طرز کے ’معرکوں‘ کو پانی پت سے مشابہت دینا ناانصافی ہوگی۔ البتہ خان صاحب کو بابر سے ضرور تشبیہ دی جا سکتی ہے کیونکہ بابر کا بہت مشہور قول ہے؛

’بابر بہ عیش کوش، عالم دوبارہ نیست‘ اور خان صاحب نے اپنی کافی ساری عمر اس قول کے عملی نمونے کے طور پر گزاری۔

اگر سونامی پارٹی والوں کی مراد پانی پت کی آخری جنگ تھی تو ان کو یہ بات باور کرانے کی ضرورت ہے کہ احمد شاہ ابدالی نے صرف مرہٹوں کو شکست نہیں دی تھی بلکہ دہلی کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی، یعنی وہاں بھی ایک طرح کا سونامی آ گیا تھا۔

اس سونامی کے نتیجے میں دہلی کا کیا حشر ہوا، اس کی تفصیلات پھر کبھی سہی۔ خان صاحب اور انکا ٹولہ کس کے ایما پر کس کی اینٹ سے اینٹ بجانا چاہتے ہیں، علماء اس معاملے پر ابھی تک خاموش ہیں۔

ابھی یار لوگ جلسے کے حاضرین کی تعداد پر ہی بحث کر رہے تھے کہ خبر آئی کہ سونامی پارٹی نے جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی الحاق کا اعلان کیا ہے، گویا کہ 'پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا'۔ اس عمل سے صاف ظاہر ہو گیا کہ شادمان کے تاجروں اور سونامی کے دعوے داروں کی سوچ میں کوئی خاص فرق نہیں اور جیالے لاکھ نعرے لگالیں، لیکن بھٹو مر چکا ہے اور مودودی ابھی تک زندہ ہے۔


majeed abid 80عبدالمجید کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور انہیں تاریخ، سیاست اور معاشیات کے مضامین میں دلچسپی ہے۔

عبدالمجید عابد

لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں پڑھیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

Dr:A.Qadeer Memon Mar 27, 2013 04:33pm
بهترين
یمین الاسلام زبیری Mar 28, 2013 08:34pm
جنگ آزادی کے ایک نامور سپہ سالار، بخت خاں، سلفی کی طرف جھکائو رکھتے تھے. آپ نے انگریزوں کے خلاف مہم میں ہندو دستوں کی اس وقت مدد نہیں کی جب وہ انگریز سے لڑ رہے تھے. آپ کا خیال تھا کہ کفار کفار سے لڑ مریں گے اور ٹانگ آپ کی اونچی رہے گی. لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا. بٹےہوئے ہندوستانیوں سے انگریز جیت گیا. پڑھیے : دی لاسٹ مغل. مصنفہ: ولیم ڈیلرمپل William Dalrymple
Koi-Kon Apr 04, 2013 09:43am
How can I talk to you ?
Shahid Irshad Apr 23, 2013 01:21am
Sir I agree with your stance about Bhagat Singh part but in the middle of the column you suddenly turned your cannons to Imran Khan. I am aware that there are many issues with his way of dealing political issues and shallowness of his political ideology but still I see him as a better person as compare to the ruling and potential ruling elites who have got a total monopoly over the system. PTI is giving a new ray of hope to break a status quo (though not in full sense). Tell me honestly do you see PML-N, Q, or PPP to be a real Awami parties unless their dictators are sitting on the top (directly or through their descendents). Honestly; I don’t see this at least in next 30 to 40 years till Hamza Shahbaz, Maryam Nawaz, Moonas Elahi, Abdul Qadir Gilani and Bilawal Bhutto Zardari are in political arena because they want to freeze the present day scenario forever because a unstable, politically unaware and uneducated Pakistan is the ideal heaven for them to flourish (politically and financially). They all have looted too much and now their kids (even those who just passed out of school) are ready to lead the parties and Pakistan as a monarch! Imran may have problems in his political outlook but he is at least giving a chance to new people! You also mentioned his personal character like Babur; I would say; do you only consider being a womanizer is the worst trait and rest like (dual personalities, lying in front of masses, plundering poor peoples’ resources, giving a false ideology to people for own benefits are not personal character problems? His personal character is not worst than all others who are doing it all but undercover!

کارٹون

کارٹون : 16 نومبر 2024
کارٹون : 15 نومبر 2024