قاصد کبوتر اور مخبر کبوتر
میں نے فہرست میں نام تلاش کرنے میں تیزی نہیں دکھائی کیونکہ خدشہ تھا کہ کہیں بعض دوستوں کے نام نظرنہ آجائیں، لیکن مجھے یہ جان کر کچھ خوشی اور کچھ اطمینان ہوا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے ان صحافیوں کی فہرست جاری کرنے کا حکم دیا ہے جن کے بارے میں مبیّنہ طور پر الزام ہے کہ انہیں پاکستان کی وزارت اطلاعات کے خفیہ فنڈ سے رقومات ادا کی جاتی ہیں-
خوشی اس بات پر تھی کہ برسہا برس سے جو افواہیں گردش میں تھیں انھیں اب عوام کی تنقیدی نگاہوں کا سامنا ہوگا- اطمینان اس بات پر تھا کہ خود اخبارات نے ضبط و استقلال کے ساتھ خود اپنے ساتھیوں کے عمل کا احتساب کرتے ہوئے کہانیاں شائع کی تھیں (یہ انکا سچائی کا لمحہ نہیں ہے کیونکہ جن پر الزامات ہیں ان کی جانب سے وضاحتی بیان بھی ضروری ہے -- اور وضاحت چاہئے بھی)
ان معاملات کی مزید چھان بین ضروری ہے لیکن ججوں اور سرکاری افسروں کی جانب سے نہیں کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ وہ ان لوگوں کی نمائندگی کر رہے ہوں جو صحافیوں کو بدنام کرنا چاہتے ہیں- بلکہ خود صحافیوں کو چاہئے کہ وہ اپنا احتساب آپ کریں-
چھان پھٹک کا عمل دنیا بھر میں جاری ہے- وہ صحافی بے نقاب ہو چکے ہیں جنہوں نے عراق کے اجتماعی بربادی کے ہتھیاروں (WMDs) کے بارے میں دنیا بھر کو گمراہ کن خبریں فراہم کی تھیں لیکن جب تک یہ انکشاف ہوا عرب دنیا کوفوج کشی سے بچانے کیلئے بہت زیادہ دیرہوچکی تھی- طاقتورروپرٹ مرڈوک اور اسکے بہترین صحافیوں کو اپنے اعمال پر جو بدعنوانیوں کے مترادف تھے سخت ترین نکتہ چینیوں کا سامنا کرنا پڑا-
اپنے قریبی پڑوسی کے تعلق سے ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ کیا ہندوستانی میڈیا جس کا بڑا نام اور طویل ماضی ہے آیا پاکستان میں اپنے ساتھیوں کے نقش قدم پر چلنے کیلئے تیار ہے اور کیا وہ مستعدی کے ساتھ خود اپنا احتساب کرنے کیلئے تیار ہے- ہندوستان کا میڈیا اپنے پیشہ کے بدلتے ہوئے تناظر میں سخت دباؤ کا شکار ہے اگرچہ کہ اس کے نتائج ہمیشہ امید افزا نہیں رہے-
روایتی طور پر یہ سمجھاجاتا ہے کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں اور کارپوریٹس اپنے مفادات کے تحت خفیہ ادائیگیاں کرتے آئے ہیں- بعض اوقات میڈیا سے مخبری کروانے کے نتائج غلط بھی برآمد ہو سکتے ہیں - کہا جاتا ہے کہ ملکہ وکٹوریہ نے ایک برطانوی خبر رساں ایجنسی کے ساتھ کیا جانے والا پانچ سو پونڈ سالانہ کا معاہدہ ختم کر دیا تھا، اس خبر رساں ایجنسی نے کریمیا کے میدان جنگ سے انھیں جعلی خبریں فراہم کی تھیں-
بطور صحافی مجھے اپنی معمولی شروعات نہیں بھولنی چاہئیں- میرے پیش رو کبوترتھے -- خبررساں کبوتر -- گرچہ زیادہ تر خوددار قسم کے صحافی بلاشبہ اپنا رشتہ اپنے ہمجنسوں سے جوڑنا پسند کرینگے-
صف اول کے ہمارے گرو مثلاً الیسٹیر کُک، مظہر علی خان اور شام لال ان اولین صحافیوں میں سے تھے جنہوں نے قاصد کبوتروں کی جگہ لی جو سرمایہ دار سٹے بازوں تک خبریں پہنچاتے تھے اور ان قارئین تک خبریں پہنچائیں جو خبروں کے بھوکے تھے اور سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت کے حامل تجزیے سننے کے لئے بے تاب رہتے تھے-
رویٹر ایجنسی جس کے ساتھ میں منسلک رہ چکا ہوں انیسویں صدی میں وجود میں آئی اور اس نے یورپ کے اسٹاک ا یکسچینجوں تک مارکیٹ کی خبریں پہنچانے کیلئے قاصد کبوتروں سے کام لیا- بلکہ یہ ایک کبوتر ہی تھا جس نے میدان جنگ سے نپولین کی شکست کی خبر واٹرلو سے انگلینڈ پہنچائی-
جس آدمی کا پالتو کبوتر لنکن کے قتل کی ابتدائی خبر اٹلانٹک کے اس پار جہاز پر لے کر جارہا تھا اس شخص نے ان خبروں کو جہاز برتھ پر لنگر انداز ہونے سے پہلے ہی لیورپول کے سٹے بازوں کے حوالے کرکے فاش کر دیا-
پاکستان میں جس فہرست کا اجرا عمل میں آ یا ہے ---- جس کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے ---- ایک اور قسم کی چڑیا نمودار ہوئی ہے جسے ہم صحافی کا نام دے سکتے ہیں: مخبری کرنے والا کبوتر-
تو پھر ہم ان بےتاب قلم کاروں کو اور کیا نام دیں جو شائد سرکاری یا نیم سرکاری ایجنسیوں کی خیرات پر پل رہے ہیں جنہیں خبروں کو گھڑنے یا ان کا گلا گھونٹنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے؟ (مثال کے طور پر، وہ صحافی جو اپنے قومی پرچموں کو طمطراق سے لہراتے ہیں من گھڑت کہانیاں گھڑنے کی ترغیب کا بآسانی شکار ہو سکتے ہیں- ہو سکتا ہے کہ وہ یہ خیرات نہ لے رہے ہوں لیکن والٹر مٹیّ جیسی شدید جذباتیت نے انھیں عراق اور کشمیر میں حقا ئق پر سے پردہ اٹھانے سے کسی حد تک باز رکھا ہے)-
مرڈوک کے واقعہ میں صحافت کا کوئی پہلو نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکا- یہ قیاس آرائی نہیں کی جاسکتی کہ لندن میں اس کی ایمپائر کے غیر اخلاقی طور طریقے دہلی میں اس کے مفادات سے مختلف رہے ہونگے-
ان روابط کی سچائی جاننے کا ایک واضح طریقہ تو یہ ہوسکتا ہے کہ ہم ہندوستان میں مرڈوک کی میڈیا تنظیموں کی نیو لبرل ادارتی ترجیحات کا جائزہ لیں- وہ کون سے ہندوستانی صحافی ہیں جو اس کی ادارتی اور ٹی وی تنظیموں سے وابستہ ہیں اور ان کے سیاسی اہداف اور عالمی نقطہء نظر کیا ہیں؟
بعض اوقات مبہم لفظوں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں کی خدمات کو جوخود ساختہ دفاعی تجزیہ نگار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں معاوضہ دیکر حاصل کیا جاتا ہے تاکہ وہ ٹی وی یا اخباروں میں ہتھیاروں کی ایک ڈیل کے مقابلے میں دوسری ڈیل کی مخالفت کریں اور اس سے فائدہ اٹھائیں-
میرے دوست اور دہلی میں بی بی سی کے سابقہ نامہ نگار ستیش جیکب نے ہندوستانی میڈیا میں سنگین نوعیت کی بدعنوانیوں کے بارے میں ایک مختصر فلم بنائی ہے "خریدی ہوئی خبریں" کے واقعات کے بارے میں ان کے خیالات اپنی نوعیت کے اعتبار سے ان واقعات سے مختلف نہیں ہیں جو من گھڑت خبریں پھیلانے یا ان کا گلا گھونٹنے سے متعلق ہیں اور جنھیں برملا طور پرخر یدی ہوئی بھی نہیں کہا جا سکتا-
خریدی ہوئی خبریں مدیروں اور انکے کارپوریٹ مالکان کی ایک نئی پالیسی کو ظاہر کرتی ہیں جو پیسہ دیکر سیاسی امیدواروں کی مثبت تشہیر کرتے ہیں- انکے مراسلے باوثوق محسوس ہوتے ہیں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انکی حیثیت شرمناک اشتہاروں سے زیادہ نہیں ہوتی-
جیکب نے صحافت کے ایک اور شرمناک واقعہ کا ذکر کیا ہے جو ایسے سینئر صحافیوں کے بارے میں ہے جن کا تعلق ایک مقبول عام ٹی وی چینل سے تھا- انھیں ایک ایسے سیاست دان سے رشوت مانگتے ہوئے دکھایا گیا تھا جس کے کاروباری مفادات کا وہ بصورت دیگر بھانڈا پھوڑ دیتے-
ان سینئر صحافیوں کا کیمرے پر پکڑا جانا بھی ایک دلیرانہ واقعہ تھا- لیکن ابھی تک ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ اس کمپنی کے بارے میں کیا جانتے تھے جس کیلئے کمپنی کے سیاسی مالک نے انھیں رشوت پیش کی اوراس واقعہ کو خفیہ طور پر ریکارڈ کیا-
آج ہندوستان میں، فرقہ وارانہ فسادات سے لے کر وفاقی بجٹ تک، ہر چیز کا ایک کارپوریٹ پہلو ہے- چھتیس گڑھ کے جنگلوں سے ماؤاسٹ باغیوں کو نکالنے کیلئے جو فوجی حکمت عملی بنائی جا رہی ہے اس کے پیچھے بھی کارپوریٹ مفادات چھپے ہیں- انکے ان چھوئے وسائل پر بزنس ہاوسز کی رال ٹپک رہی ہے- عجیب بات یہ ہے کہ چھتیس گڑھ کے تعلق سے نجی مفادات اور ریاستی مفادات ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں اور یہ محض ایک مثال ہے-
جب یہ سب کچھ ان مشکوک حالات میں 1980 کی دہائی میں ہورہا تھا تو ایک غیر ملکی صحافی نے ریلائنس گروپ آف کمپنیزکے رسوا کن پہلوؤں پر اپنی پراسرار ممنوعہ کتاب میں روشنی ڈالی کیونکہ ہندوستان کا کوئی خبر رساں ادارہ اس مسئلہ پر قلم اٹھانے کیلئے تیار نہیں تھا-
اب یہ کمپنی جو سیاست سے وابستہ ہے دو درجن ٹی وی چینلوں کی مالک ہے- ان حالات میں صداقت کے کیا امکانات ہیں؟ کوئی معجزاتی قوت ہی اس کی تفتیش کر سکتی ہے (پریس کونسل آف انڈیا کیوں نہیں؟) ورنہ کبوتر جارج اورویل کے ڈراؤنے خواب کا نعم البدل بن جائینگے جو پالتو کبوتروں اور مخبر کبوتروں کے اختلاط کا نمونہ ہونگے
ترجمہ: سیدہ صالحہ