• KHI: Maghrib 6:51pm Isha 8:09pm
  • LHR: Maghrib 6:27pm Isha 7:50pm
  • ISB: Maghrib 6:34pm Isha 7:59pm
  • KHI: Maghrib 6:51pm Isha 8:09pm
  • LHR: Maghrib 6:27pm Isha 7:50pm
  • ISB: Maghrib 6:34pm Isha 7:59pm

اگر ملالہ ہندوستانی ہوتی

شائع May 28, 2013

ملالہ یوسف زئی - فائل فوٹو
ملالہ یوسف زئی -- فائل فوٹو --.

تو اب ہم ملالہ سے کیا کہیں گے؟ ہم اسے یہ خبر کس طرح سنائینگے؟

پاکستان میں انتخابات ختم ہوچکے. بلاشبہ یہ ایک تاریخی موقع تھا، اس لئے نہیں کہ اس کی شدید مخالفت ہورہی تھی. ایک منتخب حکومت اقتدار منتخب سیاستدانوں کے حوالے کردے ایسا پاکستان میں کم ہی ہوتا ہے.

اب سوال یہ ہے کہ نوجوان ملالہ جب مستقبل کے وزیر اعظم کو طالبان کی طرف ہاتھ بڑھاتے دیکھے گی تو وہ کیا سوچے گی؟ انہوں نے اسے ہلاک کرنے کی کوشش کی تھی اوراب وہ ان کے ساتھ صلح صفائی کرنا چاہتے ہیں.

افغانستان پر غیرملکی حملوں کی تشہیر اس طرح کی گئی کہ اس کا مقصد ملالاوُں کو ازمنئہ وسطیٰ کے ان حکمرانوں سے نجات دلانا ہے جن کی پرورش پدرسری نظام نے اپنے ہاتھوں سے کی تھی. کیا ہم ڈیورنڈ لائین کے دونوں طرف یو-ٹرن لینے جا رہے ہیں؟

یوسف زئی خاندان کی اس لڑکی کے سر میں گولی مارنے والا انہی میں سے ایک تھا یا اسی طرز فکر کا حامل تھا. اس میں ہنسی کی کیا بات ہے، ہاں ہے تو، یہ سوچنا کہ کیا ان کو سزا ملیگی؟

ساری دنیا نے سوات میں بہادری کے اس کارنامے کو سراہا، جہاں وہ ان چھوٹے چھوٹے علاقوں میں تعلیم پھیلا رہی تھی جو بموں کے حملوں اور مذہبی انتہاپسندی کے مرض سے محفوظ رہ گئے تھے. اس کا اس جان لیوا حملے سے زندہ بچ جانا ایک معجزہ ہی تھا- لیکن ابھی ایک اور اس سے بھی بڑا مرحلہ ہے جس سے اس کو گزرنا ہے.

کیا ہم اس سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ریاست ہنگامی صورت حال کا شکار ہے اور ملک یا اس علاقے میں امن بحال کرنے، معیشت کو سنبھالا دینے اور اسی قسم کے دوسرے کاموں کیلئے ضروری ہے کہ ہم ایک طرف تو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کو گلے لگائیں اور دوسری طرف طالبان سے بھی معاہدے کریں گرچہ کہ ہم ان کے (طرزعمل) ایجنڈے سے بے حد نفرت کرتے ہیں.

یہ کہانی صرف پاکستان کے حوالے سے ہی بے حد انوکھی نہیں ہے بلکہ دیکھا جائے تو 1991-1992 کے ہندوستان میں بالکل ایسا ہی ہوا تھا جبکہ نئی دہلی کی حکومت نے خفیہ طور پر آئی ایم ایف سے پینگیں بڑھانی شروع کیں تاکہ قرضوں کی عدم ادائیگی کے اس خطرے سے بچا جاسکے جسکا ذکر زوروشور سے ہو رہا تھا. حزب مخالف نے بھی ایودھیا کی طرف قدم بڑھانے شروع کئے تاکہ دھیان قرضوں کی عدم ادائیگی کے خفیہ معاہدے کی طرف سے ہٹانے میں مدد ملے.

طالبان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک خفیہ ربط موجود ہے. دونوں کا مقصد جمہوریت کو نقصان پہنچانا ہے- ایک سامنے سے وار کرتا ہے تو دوسرا پشت سے.

دونوں ہی کی بدعنوانیوں کے تعلق سے اپنی اپنی سوچ ہے جسکے بارے میں انھیں زعم ہے کہ وہ ٹھیک سمجھتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ رشوت خوری کے اس کہنہ مرض اور شدید لوٹ کھسوٹ کو عدم مساوات کا خاتمہ کئے بغیر دور کیا جا سکتا ہے حالانکہ اس کی وجہ ہی یہی عدم مساوات ہے.

خواہ یہ سرگرم نجی ملیشیا ہو جو مخالفین کو پھانسنے کے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں یا پھر نجی قرضے دینے والی تنظیمیں جن کی رال تباہ شدہ معیشت کو دیکھ کر ٹپکنے لگتی ہے، مثلا پاکستان میں توانائی کی پیداواراوراسکی تقسیم کا بحران -----یہ دونوں ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں اور جب ایسا ہوتا ہے تو، "اچھے طالبان" حقیقت بن جاتے ہیں.

ہندوستانی گجرات میں ہندوتوا کی قیادت نے دائیں بازو کی مذہبی عوامی طاقت اور کارپوریٹس کے مفادات کے خوشگوار امتزاج کی اچھی مثال پیش کی ہے. "طالبان" صرف مسلمان ہی نہیں ہوتے اور صرف یہی ایک مثال نہیں ہے جس میں انتخابات ہوں یا نہ ہوں، وہ ڈنڈے کے زور پر عوام کو دبانے میں کامیاب ہوئے ہیں.

دہلی میں توانائی کی پیداوار کی نجکاری کا تجربہ کامیاب نہیں رہا. لیکن لگتا ہے کہ پاکستان میں اس کے آثار دکھائی دے رہے ہیں. یہ صرف ایک مثال ہے اس نسخے کی جو پریشان حال عوام کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے.

جب ملالہ پر گولی چلائی گئی اس وقت کی حکومت سیکولر حکومت کے طور پر پہچانی جاتی تھی. شیعہ، ہزارہ، بعض سنی فرقے اور شہروں میں پھیلی ہوئی اقلیتیں ----ہندو، عیسائی، احمدی سب ہی پی پی پی کے پانچ سالہ دورحکومت میں جو اتنی لائق تحسین بھی نہیں تھی، اذیت سے گزررہے تھے.

پارٹی نے جرائم تو نہیں کیے لیکن جو قوتیں ان جرائم میں ملوث تھیں ان کو روکنے کی کوشش نہیں کی. خوفزدہ اقلیتوں کو جن حالات سے گزرنا پڑا وہ اس سے مختلف نہیں ہیں جس سے ملالہ اور ان کے گمنام ساتھیوں کو گزرنا پڑا جو یا تو اس کا شکار ہوچکے ہیں یا پھر خوفناک حالات سے نبرد آزما ہیں.

اگر سوات کی لڑکی ہندوستان میں پیدا ہوتی تو کیا ہوتا؟ وہ ان مثالی عورتوں کی صفوں میں ہوتی جو ایسے مسائل کے خلاف جدوجہد کر رہی ہیں جو پاکستان کو درپیش مسائل سے مختلف نہیں ہیں. جنس کی بنیاد پر انصاف، عزت کیلئے قتل، اقلیتوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت، فرقہ واریت، ہجوم کا تشدد، قدرتی وسائل کی لوٹ مار، کارپوریٹس کی جانب سے زمینوں پر قبضہ، حکمران اشرافیہ کا پانی اور معدنی وسائل پر قبضہ، تعلیم کی طرف سے مجرمانہ غفلت اور صحت کے بجٹ کو عسکریت پسند پولیس اسٹیٹ کی جانب منتقلی---- یہ چند مثالیں ہیں.

ملالہ کو "انصاف" (آئی این ایس اے ایف ----- پاکستانی جماعت نہیں) کے ساتھ کام کرکے خوشی ہوتی جس کا پورا نام ہے انڈین سوشل ایکشن فورم. ایک مضبوط سماجی جمہوری فورم یا بائیں بازو کی کسی بھی چھوٹی سی تحریک کی غیر موجودگی کے نتیجے میں بہت سے نیک نیت افراد این جی اوز میں شامل ہو چکے ہیں.

"انصاف" تقریبا سات سو ہندوستانی این جی اوز کے ساتھ ملکر کام کر رہی ہے- ان کی سرگرمیوں میں تامل ناڈو کے کوڈن کولم نیوکلئیر پاور پلانٹ کے خلاف احتجاجی مظاہروں سے لیکر آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کے خلاف مہم چلانا شامل ہے جسے فوج کشمیر اور منی پور میں بے لگام تشدد پسندی کیلئے استعمال کرتی ہے. "انصاف" ہندوستانی عورتوں، آدی واسیوں، دلتوں اور مسلمانوں کے ساتھ ملکر کام کرتی ہے اور ان کا ایجنڈہ سیکولر اور ترقی پسندانہ ہے.

حال ہی میں ہندوستان کی وزارت داخلہ نے اس تنظیم کے اکاونٹ منجمد کر دئے جس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ غیر ملکی رقومات کا استعمال ہندوستان کے مفاد عامہ کے خلاف ہے. ایک ایسی ریاست کیلئے جو اپنے غریب دشمن منصوبوں کی تکمیل کیلئے غیر ملکی فنڈ استعمال کرتی ہے یہ کوئی حیرت انگیز بات نہ تھی.

ملالہ کو طالبان اور ایک خیالی ورکنگ جمہوریت کے درمیان بہت سی مشابہتیں نظر آئینگی. این جی اوز پر جو قدغن لگائی گئی وہ تیسری دنیا کے کسی بھی ملک میں وقوع پزیر ہو سکتی ہے.

اس قانون کے مطابق حکومت خود کو ڈھٹائی کے ساتھ اس طاقت سے لیس کرلیتی ہے جس کی مدد سے وہ "عادتاً" بند، ہڑتال، رستہ روکو، ریل روکو اور جیل بھرو کی تحریک چلانے والے کسی بھی گروپ کے خلاف اقدام کر سکتی ہے- حالانکہ یہ سب عدم تشدد کی علمبردار جمہوری احتجاج کی شکلیں ہیں جنہوں نے ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی کوکھ سے جنم لیا تھا اور جسے دنیا بھر میں احتجاج کرنے کا جائز طریقہ تصور کیا جاتا ہے.

ملالہ یوسف زئی کیلئے یہ مشکل ہوگا کہ وہ طالبان کے سامنے سے ہونے والے حملے اور جمہوریت کی طرف سے، جسکی دنیا بھر میں بڑی ستائش ہوتی ہے، چابک دستی کے ساتھ ہونے والے وار کے درمیان انتخاب کرے.


 ترجمہ: سیدہ صالحہ

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

زوالفقار Aug 15, 2013 09:45am
ملالا کو سلام
ممتاز علي Aug 15, 2013 09:47am
ملالا کو سلام الله ڪري آپ ڪمياب هو جائين

کارٹون

کارٹون : 8 اپریل 2025
کارٹون : 7 اپریل 2025