!ہم سچے مسلمان ہیں
اسلام کے نام پر جتنا شور پاکستان میں مچایا جاتا ہے دنیا میں اور با لخصوص اسلامی دنیا میں کہیں نہیں مچایا جاتا۔
اسلام کے جتنے بڑے ٹھیکیدار پاکستان میں بستے ہیں اس سے یوں لگتا ہے پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جہاں سچے مسلمان رہتے ہیں. ایک سچے مسلمان کی جو نشانیاں ہوتی ہیں وہ یہاں کے لوگوں میں ساری موجود ہیں. ہمارے لوگ داڑھی رکھتے ہیں ان کی شلوار اور پینٹ ٹخنے سے اوپر ہوتی ہے، ساری دنیا میں مسجدوں کی سب سے بڑی تعداد بھی پاکستان میں ہے لہذا اسی تناسب سے نمازی بھی یہیں پائے جاتے ہیں اور رمضانوں میں شا ید ہی کوئی ایسا آدمی ہو جو روزہ نہ رکھتا ہو لیکن حیرت انگیز طور پر اتنی بڑی تعداد میں بسنے والے سچے مسلمانوں کا ملک بد عنوانی میں سر فہرست ہے۔ جتنا خون نا حق یہاں بہتا ہے شاید ہی دنیا میں کہیں بہتا ہو۔
تو آخر وجہ کیا ہے؟ جب ہم س بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہمیں خدا کے آگے حا ضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے تو پھر یہ غفلت کیوں؟
کیوں ہم رشوت لیتے ہوئے خدا کو بھول جاتے ہیں؟ کیوں ہم کسی کا حق مارتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ روز محشر وہ شخص میرا گریبان پکڑ لیگا۔ کیوں مرداروں کا گوشت بیچتے ہوئے ہمارے ہاتھ نہی کپکپاتے، کیوں ہم دولت اور دولت اور دولت کے انبار لگانے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں.
ایک سچے مسلمان ہونے کے ناطے خدا کے نام پر کبھی کچھ خرچ نہیں کرتے، کیوں ہم فرقے اور نسل کے تعصب میں لوگوں کی زندگیاں تک لینے سے گریز نہیں کرتے۔
جبکہ ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے پھر کیوں ہم جزا اور سزا کا عمل خدا پر نہیں چھوڑدیتے۔
ان تمام سوالوں کے جواب میں ان دانشوروں سے پوچھوں گا جنھوں نے ہمارے لوگوں کو اس سحر میں مبتلا کر رکھا ہے کہ آپ دنیا کی بہترین ملّت ہیں.
جیسا علامہ صاحب فرماتے ہیں "... مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ"، آخر کون سا سورج!؟ مشرق میں تو سورج غروب ہوتا دکھائی دیتا ہے ہاں اگر کہیں ابھرا ہے تو وہ چین ہے جسکا مذہب سے کوئی تعلق نہیں.
جب ہم ملّت کی بات کرتے ہیں تو فرد اپنی ذمہ داریوں سے بری الزمہ ہوجاتا ہے ہم بھلے سے وہ فرائض انجام دے رہیں ہوں یا نہیں جو خدا نے ایک انسان ہونے کے ناطے ہمارے ذمہ لگائے ہیں کہ ہم جھوٹ نہ بولیں، کسی کا دل نہ دکھائیں، حرام نہ کھائیں، اپنے مال میں سے اپنے عزیز و اقارب اور یتیموں اور مسکینوں کو بھی حصہ دیں لیکن میرے لیئے بس یہ سوچ کافی ہے کہ میں نے داڑھی رکھ لی اور میں پابندی سے نماز پڑھتا ہوں اور روزہ رکھتا ہوں.
ہاں اگر کوئی ہمارے مذھب کے بارے میں گستاخی کرے تو ہم سڑکوں پر ٹائر جلاتے ہیں اور اپنی ہی املاک کو نقصان پہنچا کر بہترین ملت ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔
ہمار ے یہاں ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اگر فرداً فرداً لوگوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جائے تو ہم سچے مسلمان بن سکتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ لا کھوں کی تعداد میں رائے ونڈ میں جمع ہونے والے یہ حضرات بھی پاکستان کے اندر کوئی بڑی تبدیلی لانے میں کا میاب نہیں ہو سکے.
میں ایک ایسے صاحب کو جانتا ہوں جن کا تعلق کسی جما عت سے ہے حضرت اپنی شادی کے ایک ہفتے بعد ہی اپنی بیوی کو گھر میں بند کرکے خود چلّے پر چلے گئے، اسے انتہا پسندی کہتے ہیں۔
پچھلے دنوں ایک پڑھے لکھے نوجوان انقلابی نے جو ملک میں دوبارہ سے ترقی پسند قوتوں کو جمع کرنے کی کوشش کر رہا ہے، مجھ سے سوال کیا؛
"کامریڈ کیا آپ بحیثیت 'انقلابی' اپنی ذمہ داریوں کو پورا کر رہے ہیں اور پا کستان میں شعور کی اگاہی کے لئے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں"؟
میں سوچ میں پڑ گیا، میرا خیال ہے خدا نے مجھ پر جو ذمہ داریاں جس تناسب سے عائد کیں ہیں وہ بہترین ہے. سب سے پہلے مجھ پر میری ماں کی اور بیوی بچوں کی ذمہ داری ہے اس کے بعد عزیز و اقارب اور معاشرے کے دوسرے حقدارو ں کی باری آتی ہے یہ ایک بہترین فارمولہ ہے۔
ہم جو ترقی یافتہ اور مہذب قوموں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں وہاں کا ہر فرد ان خصوصیات کا حامل نظر آتا ہے جن کی طرف اسلام اشارہ کرتا ہے. آج غیر مسلم قومیں اسلام کے خوبصورت اور انسانیت دوست پیغام کو اپنا کر دنیا کی بہترین اقوام بن چکی ہیں جبکہ ہمارا فرد ابھی تک ان چیزوں سے نابلد ہے اور محض داڑھی رکھنے اور روح سے خالی عبادتوں کو ہی اسلام سمجھتا ہے.
خرم عباس ایک ڈرامہ نگار ہیں اور کراچی کی دنیا ان کا خاص موضوع ہے
تبصرے (3) بند ہیں