مراد علی شاہ نے اپنے کیریئر کا آغاز 1986 میں واپڈا سے بطور جونیئر انجینئر کیا، وہ پہلی بار 2002 کے عام انتخابات میں جامشورو کے حلقہ پی ایس 73 سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔
پیپلزپارٹی کے نامزد وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے 112 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مدمقابل متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے امیدوار علی خورشدی 36 ووٹ لے سکے۔
عدلیہ کا فرض ہے کہ وہ عوام کے مینڈیٹ کی حفاظت کرے اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف کھڑے ہوں، بصورت دیگر ہم خود کو بحیثیت ملک اپنے اداروں کو مکمل ناکامی کے دہانے پر پائیں گے۔
صرف معیشت نہیں بلکہ داخلی سلامتی سے متعلق مسائل بھی درپیش ہیں جن پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان وسیع تر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے اور اپوزیشن کو آن بورڈ لینے کی ضرورت ہے۔
ملکی تاریخ میں شہباز شریف وہ دوسرے سیاستدان ہیں جو مسلسل دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے ہیں, اس سے قبل یہ اعزاز صرف سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو حاصل تھا۔
پانچ سال پہلے مسلم لیگ (ن) دھاندلی کا رونا رو رہی تھی پانچ سال بعد پی ٹی آئی چیخ رہی ہے، بدلتے کرداروں کے ساتھ ایک طرح کی کہانی نے عوام کو بیزار کردیا ہے۔
مریم نواز نے اب تک جو کچھ حاصل کیا ہے اس میں سے زیادہ تر ان کے والد کے حق کی لڑائی ہے، لیکن پہلی خاتون وزیراعلیٰ کا حلف اٹھاتے ہی وہ اب صرف اپنے باپ کی بیٹی نہیں رہ سکتیں۔
ان انتخابات میں نوجوانوں کا کلیدی کردار تھا کیونکہ ہمارے ملک میں اوسط عمر 22.7 سال ہے اور اس سال 5 کروڑ 68 لاکھ اہل ووٹرز کی عمر 35 سال سے کم تھی۔ لیکن کیا ہمارے نوجوان ووٹرز پائیدار انداز میں متحرک نظر آئے؟
کہتے ہیں ناں کہ مصیبت کبھی تنہا نہیں بلکہ ہمیشہ جوڑے کی صورت میں آتی ہے، تو مشرف صاحب کے لیے ایک طرف افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک تھی جبکہ دوسری جانب لال مسجد کا کرائسس شروع ہوگیا۔
کیوں اقتدار میں آنے کے ایک یا دو سالوں بعد اچانک وزرائے اعظم ایک وجودی بحران کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی 'مقبولیت' انہیں اسٹیبلشمنٹ سے الگ کرنے کے لیے کافی ہے؟
پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی قومی اسمبلی کی نشستوں پر برتری، ایسے میں پی ٹی آئی کے پاس کیا آپشنز موجود ہیں؟ آئیے اس سوال کا جواب معروف تجزیہ کاروں سے جانتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے معذور افراد کو قابلِ ذکر سہولیات نہیں دی گئیں۔ پولنگ اسٹیشنز پر اونچی سیڑھیاں تھیں جنہیں چڑھ کر وہ اپنے متعلقہ پولنگ بوتھ پہنچے۔
نواز شریف کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے کسی جنرل کو بالکل ایسے تلاش کرتے ہیں جیسے لڑکی کا رشتہ تلاش کیا جاتا ہے اور یہ سب کرکے جب اسے سپہ سالار تعینات کردیتے ہیں تو اسی سے ان کی لڑائی ہوجاتی ہے۔
جدید دنیا میں اتنی بڑی تعداد میں ممالک کو تنظیمی اصولوں پر انتخابی عمل سے گزرتا دیکھنا بظاہر جمہوریت کی فتح کے لیے پرکشش لگ رہا ہے لیکن اگر غور کریں تو جمہوریت کو بہت سے محاذوں پر خطرات کا سامنا ہے۔
پاکستان کی پارلیمانی جمہوریت کی بدقسمتی ہے کہ حکومت کو چاہے دو تہائی اکثریت، سادہ اکثریت ملے یا چاہے وہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، اس کے لیے 5 کا ہندسہ پار کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔
پاکستان کی 77 سالہ تاریخ میں 45 سال میں 23 وزیر اعظم اور 32 سال میں 4 فوجی آمر حکمرانی کرتے رہے، گویا ہر وزیر اعظم اوسطاً 2 سال 10 مہینے اور ہر فوجی آمر کی اوسط مدت 8 سال ہے۔
محمد خان جونیجو صاحب نے کہا 'میں جرنیلوں کو سوزوکی میں بٹھاؤں گا'، یہ بیان درحقیقت اسٹیبلشمنٹ کی دم پر پاؤں رکھنے کے مترادف تھا اور بہت بعد میں جا کر اس بیان کا غصہ ان کی برطرفی کی صورت میں ہمارے سامنے آیا۔
قرآئن بتاتے ہیں کہ کس کی حکومت بنے گی مگر یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اصول کے پابند امیدواروں سے زیادہ تعداد میں آزاد امیدوار جیت جائیں گے۔
انتخابات ہوں یا مردم شماری، شعبہِ تعلیم سے وابستہ خواتین سرکاری ملازمین قومی فریضے کی انجام دہی میں پیش پیش رہتی ہیں لیکن بطور انتخابی عملہ بھی خواتین کو متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نواز شریف واپس آچکے ہیں اور اب اقتدار میں آنے کے لیے ان کی پوزیشن مضبوطہے، ایسے میں بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وہ اتنے وسائل تلاش کرپائیں گے کہ وہ انتخابی مہم میں کیے اپنے وعدوں کا نصف بھی پورا کرسکیں؟
1985ء میں بلدیاتی ذہن کے ساتھ قومی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے، یہی مارشل لا حکومت کا ٹارگٹ تھا کہ اس طرح کے سیاست دان آجائیں جو پڑھے لکھے نہ ہوں تاکہ وہ سوال کریں گے اور نہ ہمیں جواب کی زحمت ہوگی۔
حکومت میں آ کر آئینی ترامیم کرے گی کہ وزیراعظم کا انتخاب چند ایم این ایز کے بجائے براہ راست عوام کریں گے، یعنی وزیراعظم عوام کی مرضی سے منتخب ہو کر آئے گا، رہنما پی ٹی آئی