ایک ایسے کڑے وقت میں کہ جب پریس حملے کی زد میں ہے، ٹاک شوز میں کی جانے والی معذرتوں نے دھچکا پہنچایا ہے کیونکہ یہ معذرتیں نقطہ نظر پیش کرنے پر کی گئی ہیں۔
ملک کی تین صوبائی حکومتیں جہاں تین مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے، تقریباً ایک ہی وقت میں ہائر ایجوکیشن کے شعبے کو اپنے ماتحت کرنے کی کوشش کررہی ہیں، کیا یہ محض اتفاق ہے؟
پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان تنازع کے سنگین اثرات ہمارے معاشرے کے ایک اور کمزور طبقے پر مرتب ہوئے اور وہ طبقہ اسلام آباد میں مقیم افغان پناہ گزین ہیں۔
آرمی چیف اور سیاسی جماعتوں کے اجلاس نے ظاہر کیا کہ ریاست کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، متعلقہ حکام شعور رکھتے ہیں کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے محض ملٹری آپریشن کافی نہیں ہے۔
حالیہ برسوں میں جب اقتدار کے لیے سیاسی جماعتیں اتحاد بنانے اور برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کرتی نظر آئیں تو نوابزادہ نصر اللہ جیسی شخصیت کی شدت سے کمی محسوس ہوئی۔
آئینی ترمیم کے بعد یہ گمان کرنا کہ 4 اراکین پارلیمنٹ، اٹارنی جنرل اور وزیرِ قانون ایسے لوگوں پر حاوی ہوجائیں گے جو تمام سیاسی جماعتوں کو کنٹرول کررہے ہیں، کسی صورت حقیقت پسندانہ نہیں۔
جلسہ شروع ہونے کے بعد پولیس نے اوقات کو اتنی ہی غور سے دیکھا جیسے لاہور کی انتظامیہ بڑے ہوٹلز میں شادیوں کی تقریبات کو دیکھتی ہے جہاں ہر صورت وقت مقررہ پر لائٹس بند ہوجاتی ہیں۔
اگر عوام کو اپنے مطالبات منوانے کے لیے سڑکوں پر نکلنا ہوگا تو کیا انتخابات، سیاسی جماعتوں کا رسمی ڈھانچہ اور پارلیمنٹ عام آدمی کی نمائندگی کرنے کے اہل نہیں؟
اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے کے کوئی مثبت اثرات سامنے نہیں آئیں گے بلکہ یہ تو ایک بری خبر ہے جو ہمیں زیادہ ٹیکسز اور بلز کی صورت میں دیکھنے کو ملے گی۔
اسحٰق ڈار کی تقرری ظاہر کرتی ہے کہ اتنا کچھ ہوجانے کے بعد بھی شریف خاندان ملک میں آنے والی تبدیلی کو سمجھ نہیں پایا ہے کہ وہ اپنی حمایت کیوں کھو رہے ہیں۔
مجموعی طور دیکھا جائے تو میڈیا پر نشر یا شائع ہونے والے مواد میں قابلِ اعتراض کچھ نہیں اور اعتراض ہونا بھی کیوں چاہیے کہ جب رپورٹنگ کو صرف سیاستدانوں کی بیان بازی تک محدود کردیا گیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے پاس بطور انتخابی نعرہ ماضی کی صرف ایک ہی یاد نواز شریف کا 2018ء-2013ء کا دور ہے، کیونکہ وہ گزشتہ 16 ماہ کا بوجھ اپنے سر نہیں لینا چاہتے۔