قرض تنہا نہیں
نوجوانوں کے لیے وزیراعظم کی قرض اسکیم نے ایک ہیجان بپا کردیا ہے۔ منصوبے کے پہلے مرحلے میں قرض کے اہل، ایک لاکھ درخواست دہندگان کو فی کس ایک لاکھ سے بیس لاکھ روپے دیے جائیں گے۔ اس مرحلے میں حکومت نے مجموعی طور پر ایک سو ارب روپے تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔
اشاریے کہتے ہیں کہ حکومت نے اقتصادی سرگرمیوں میں بڑے پیمانے پر اضافے کو یقینی بنانے کی خاطر، منصوبہ بندی پر عمل درآمد کی کوشش کی ہے۔
عام طور پر قرض کی وصولی ایک مشکل مرحلہ ہے تاہم وصولی کے تناظر میں، چھوٹے قرضوں کی فراہمی اچھا خیال ہے۔
اس طرح کے منصوبوں کی کامیابی کے لیے شفافیت اور آسان رسائی لازمی عنصر ہے۔ اس ضمن میں ایک اور اہم عنصر، دیے گئے قرض کے بامقصد استعمال کی خاطر سازگارماحول کی موجودگی بھی ہے۔
دیے گئے قرض کے درست استعمال کی خاطر جائز شرائط نہ ہونے کا انجام، قرض دینے والے حکام اور اس سے ممکنہ مستفید ہونے والوں کے تعلق کا ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں پر اختتام ہوسکتا ہے۔ ناکامی کی ایسی صورتِ حال فریقین اور خود بینک کے لیے بھی نقصان دہ ہوگی۔
حکومت پرائم منسٹر یوتھ لون اسکیم کی اہمیت کو سمجھتی ہے۔ دوسری باتوں کے علاوہ، اس منصوبے کا جنم وزیرِ اعظم کی صاحبزادی مریم نواز کی تقرری کے ساتھ ہوا ہے، جو منصوبے کی نگرانی کریں گی۔
پاکستان مسلم لیگ کی ہم عصر بینظیر بھٹو، جن کی تصاویر سابق حکومت کی انکم سپورٹ پروگرام پر آویزاں ہے، تاوقتیکہ ایسا کرنا کسی بہتر مفاد کے تناظر میں ہو، محترمہ نواز کو ہرگز یہ مشورہ نہیں دیں گے کہ وہ چند سیاسی پوائنٹس اسکور کرنے کی خاطر اس اسکیم کو کسی خطرے میں ڈالیں۔
منصوبے کی سربراہی کا معاملہ طے ہوچکا، اب ضرورت ہے کہ حکومت خود اپنے آپ سے پوچھے کہ وہ جس قرض کی پیشکش کررہی ہے، اس کے بامقصد استعمال کی خاطر سازگار ماحول، جیسے توانائی شعبے کی بہتری وغیرہ، کو فوری طور پر تخلیق کرسکتی ہے۔ انفرا اسٹرکچر کی سپورٹ کے بغیر یہ نہیں کیا جاسکتا۔
اکثر ایسا ہوتا کہ صنعتی پیداوار میں بہت کم یا بالکل بھی اضافہ کیے بغیر، لیا گیا قرض دکان بنانے، سجانے میں ہی ختم ہوجاتا