وزیراعظم نجکاری کے لیے صوبوں کی حمایت حاصل نہ کرسکے
اسلام آباد: کل بروز پیر 10 فروری، وزیراعظم نواز شریف نے مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) کے پچیسویں اجلاس کی صدارت کی، جس میں تمام صوبوں کے وزرائے اعلٰی نے بھی شریک تھے۔
اس اجلاس کے آغاز میں بین الصوبائی رابطہ سیکریٹری اعجاز چوہدری نے اجلاس کا ایجنڈا پیش کیا۔
شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ حکومت ایک اجتماعی ذمہ داری ہے، اور تمام صوبے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے کام کریں۔
اجلاس میں لیے گئے فیصلے کے تحت بجلی کے شعبے کے تمام ادارے، مثلاً تقسیم کار اور پیداواری کمپنیوں کی نجکاری کردی جائے گی۔
اس کے علاوہ اجلاس میں قومی توانائی پالیسی 2013-18ء بھی منظور کی گئی۔
وزیراعظم نے اپنے نجکاری پالیسی کے لیے صوبائی حکومتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی، ان کے ناقدین کے مطابق جس کے حوالے سے وہ بہت پُرجوش تھے۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے حوالہ دیا کہ ”اس وقت حکومت کے پاس سرکاری اداروں کے نقصانات کا بوجھ اُٹھانے کے لیے بہت محدود وسائل ہیں۔ ماضی میں کی گئی غیر ضروری بھرتیاں اور بدعنوانی کے نتیجے میں ان اداروں میں بدانتظامی پیدا ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ نجکاری ہی اس کا واحد حل ہے اور یہی قومی مفاد میں ہے۔“
تیس قومی اداروں کی نجکاری کے اعلان کے بعد سے حکومت پر اس کی نجکاری پالیسی پر بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق سندھ کے وزیراعلٰی قائم علی شاہ نے اداروں کی نجکاری جیسے کہ پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف اپنی تشویش کو ریکارڈ کرایا۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں وفاقی حکومت کو محتاط رہنا چاہیٔے کہ اس کا نشانہ بالآخر ملازمین ہی بنیں گے۔ لہٰذا ان کے روزگار کے تحفظ سے سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیٔے۔ پیپلزپارٹی پہلے ہی نجکاری پالیسی کی مخالفت کرچکی ہے۔
اس کے علاوہ مشترکہ مفادات کی کونسل نے طویل عرصے سے التواء کا شکار 80 کروڑ ڈالرز کی اتصالات سے وصولی کے معاملے پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔ اتصالات نے پی ٹی سی ایل کو خریدا تھا۔
اتصالات متحدہ عرب امارات کی کمپنی ہے، جس نے اس وقت تک ادائیگی سے انکار کردیا تھا جب تک کہ حکومت پی ٹی سی ایل کے تمام اثاثہ جات اس کو منتقل نہیں کردیتی، جیسا کہ اس نے 2005-6ء کے دوران نجکاری کے وقت رضامندی ظاہر کی تھی۔
وزیراعظم نے کہا کہ یہ تنازعہ حکومت کے لیے خاصی شرمندگی کا باعث تھا، اور اس کو بہت پہلے حل ہوجانا چاہیٔے تھا۔
وزارتِ خزانہ کی جانب سے وزرائے اعلٰی کو ادائیگی کے بارے میں یقین دہانی کرائی گئی اور کہا گیا کہ وہ اپنے داؕئرہ اختیار میں آنے والی پی ٹی سی ایل کی جائیداد کی اتصالات کی منتقلی کا عمل شروع کریں۔
ادائیگی کا معاملہ سندھ کے وزیرِ اعلٰی کی جانب سے اُٹھایا گیا تھا۔
مشترکہ مفادات کی کونسل نے تھر کول منصوبے کے لیے خودمختار ضمانت جاری کرنے کی منظوری دے دی۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ ایک اہم قومی منصوبہ ہے، جس کی مکمل حمایت کی جائے گی، اس لیے کہ یہ سستے نرخوں پر بجلی فراہم کرے گا۔
یہ فیصلہ کیا گیا کہ کوئلے کے بنیاد پر شروع کیے جانے والے مستقبل کے تمام منصوبوں کے لیے خودمختار ضمانت فراہم کی جائے گی۔
کونسل نے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور فیصلہ کیا کہ اس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ایک تشخیصی تجزیہ کیا جائے گا۔
پانی و بجلی کی وزارت نے تمام صوبوں کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کرنے کے لیے کہا، جس میں بجلی کے شعبے کے لیے ان کے واجب الادا بقایاجات کی کٹوتی کے طریقہ کار پر تبادلۂ خیال کیا جاسکے۔
وزیراعظم نے کہا کہ سرکاری اداروں کے بورڈ کے اراکین کی تقرری سے پہلے صوبوں کے ساتھ لازماً مشاورت کی جانی چاہیٔے تاکہ یکساں نمائندگی کو یقینی بنایا جاسکے۔
اس اجلاس میں پاکستان انجینئرنگ کونسل کا ترمیمی بل 2013 بھی منظور کیا گیا۔
بلوچستان حکومت کی جانب سے پی پی ایل، او جی ڈی سی ایل اور ایس ایس جی سی ایل کے بیس فیصد شیئرز کی خریداری کے معاملے پر وزیراعظم نے فنانس ڈویژن سے کہا کہ وہ صوبوں کے ساتھ تفصیلی مشاورت کریں۔
سندھ کی جانب سے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کی مخالفت (اسٹاف رپورٹر):
کراچی: پیر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے ایک اجلاس میں سندھ کے وزیرِ اعلٰی سید قائم علی شاہ نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کی مخالفت کی۔
ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے اپنی نجکاری کی پالیسی کے تحت تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کرنے کے لیے اپنا کیس مشترکہ مفادات کی کونسل میں پیش کیا، لیکن اس پر اتفاق رائے حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ یاد رہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے اپنے معاہدے کے تحت نجکاری پالیسی کی پیروی کی پابند ہے۔
قائم علی شاہ نے اس تجویز کی مخالفت کی اور کہا کہ ان کمپنیوں کی نجکاری سے ہزاروں ورکرز بیروزگار ہوجائیں گے۔
اس کے علاوہ انہوں نے سندھ کے پانی کا حصہ اسلام آباد کو فراہم کرنے سے انکار کردیا، انہوں نے کہا کہ صوبے کو پہلے ہی پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ”کراچی کے دو کروڑ سے زیادہ کی آبادی کو پانی کی قلت برداشت کررہے ہیں۔ ان حالات میں ہم کس طرح اپنے حصے کا پانی انہیں فراہم کرسکتے ہیں۔“
رپورٹ کے مطابق مشترکہ مفادات کی کونسل ایک اتفاقِ رائے حاصل کرنے میں ناکام رہی اور یہ معاملہ اگلے اجلاس تک ملتوی کردیا گیا۔