وزیرستان آپریشن پر سول سوسائٹی کے خدشات
اسلام آباد : شمالی وزیرستان میں جاری فوجی کارروائی جسے آپریشن ضرب عضب کا کوڈ نام دیا گیا ہے، کو سول سوسائٹی کی جانب سے بہت زیادہ حمایت ملی ہے، تاہم بیشتر افراد ماضی کے آپریشنز کے دوران کئے گئے کئی وعدوں کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے اس کارروائی میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہیں۔
مزید یہ کہ بڑے شہروں میں سیکورٹی بڑھانے سے ایک بڑے دہشتگردانہ حملے کے حقیقی امکانات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔
وکلاء برادری، ایکس سروس مین، طالبعلم اور دیگر نے ڈان سے بات کرتے ہوئے حکومت اور فوج کے دہشتگردی کے خطرے کے خلاف ردعمل کی منظوری اور تنقید جیسے ملے جلے خیالات کا اظہار کیا۔
انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ حمید گل نے حکومتی حکمت عملی کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اس سے منسلک دھڑوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
تاہم انھوں نے وزیرستان کے بے گھر افراد یا آئی ڈی پیز کی بحالی نو پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ اس بحران پر قابو پایا جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت متاثرہ علاقوں میں طبی ٹیمیں اور ادویات بھیجے جانے کی فوری ضرورت ہے۔
حمید گل نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ عسکریت پسند گروپوں کی جانب سے آپریشن کو ہدف بنانے کیلئے جوابی کارروائی ہوسکتی ہے۔ ان کے بقول وہ بیشتر شہری علاقوں میں موجود ہیں اور وہاں امن و امان کی صورتحال خراب کرسکتے ہیں۔
سابق صدر پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کے رہنماءاحمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ منگل کو لاہور میں طاقت کا وحشیانہ استعمال عام عوام میں اتحاد کی جگہ تقسیم پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شفقت محمود چوہان نے ڈان کو بتایا کہ فوجی کارروائی شروع کرنے کیلئے تمام قانونی ضروریات پوری کی جانی چاہئے تھی۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کو اس معاملے کو پارلیمان میں لاکر دیگر جماعتوں کی سیاسی حمایت حاصل کرنی چاہئے تھی۔
شفقت محمود چوہان نے آئی ڈی پیز کی مناسب بحالی نو پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے اقدامات فوجی کارروائی کے ساتھ کئے جانے چاہئے، تاکہ بے گناہ آئی ڈی پیز متاثر نہ ہوسکیں۔
اکبر بگٹی کیس میں سابق وزیر داخلہ آفتاب شیر پاو کے وکیل بیرسٹر مسرور شاہ نے کہا کہ اب تک کم از کم ماضی کی دو فوجی کارروائیوں یعنی لال مسجد آپریشن اور نواب اکبر بگٹی کے قتل کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاچکی ہیں۔
تاہم انھوں نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب اس لئے مختلف ہے کیونکہ یہ شہری علاقوں کی بجائے قبائلی علاقہ میں شروع کیا گیا ہے، ماضی کے کیسز پر ایف آئی آر کا اندراج ضابطہ فوجداری کے تحت ہوا جس کا اطلاق وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات پر نہیں ہوتا کیونکہ ان علاقوں میں فرنٹئیر کرائمز ریگولیشن (ایف آر سی) نافذ ہے۔
انھوں نے ایف سی آر کی مجموعی ذمہ داریوں کے تصور پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ کچھ خاص کیسز میں پورا قبیلہ کسی ایک قبائلی کے جرم کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔
نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کی طالبہ مریم گل کے اس بارے میں کہنا تھا کہ آپریشن دہشتگردی کے مسئلے پر قابو پانے کیلئے بہت ضروری تھا، تاہم قبائلی علاقہ جات میں سابقہ فوجی آپریشنز کی طرح موجودہ آپریشن کو بھی مرکزی شہری مراکز میں مضبوط حمایت ملنی چاہئے۔
انھوں نے اس بات پر توجہ دلائی کہ ڈرون انتہائی موثر ہے اور اس سے عسکریت پسندوں کو زیادہ پہنچانے کیساتھ ساتھ فوجی ہلاکتوں کو بھی محدود کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ فوج کو آپریشن کیساتھ ساتھ ڈرون حملوں کی بھی اجازت دی جانی چاہئے۔
مریم گل کا مزید کہنا تھا کہ دہشتگردوں کی جوابی کارروائی ایک حقیقی خطرہ ہے اور وہ مقبول مقامات جیسے شاپنگ مراکز اور ایسی جگہیں جہاں لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوں، جانے سے گریز کرتی ہیں۔
تاہم انھوں نے اس حوالے سے تیار نہ ہونے پر انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا اور کہا کہ میرا نہیں خیال کہ رینجرز کی تین پٹرولنگ گاڑیاں کچھ زیادہ کرسکتی ہیں۔
نسٹ کے ایک اور طالبعلم حامد حیدر نے آپریشن شروع کرنے کے حکومتی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے نامناسب ردعمل قرار دیا۔ انھوں نے پیشگوئی کی کہ فوجی کارروائی شہری علاقوں میں تشدد بڑھنے اور بڑے شہروں میں آئی ڈی پیز کی بڑی تعداد پہنچنے کا سبب بنے گی۔
حامدحیدر کے مطابق جب آپریشن کی ساری توجہ قبائلی علاقوں پر مرکوز ہوجائے گی تو عسکریت پسند آسانی سے شمالی وزیرستان سے نکل کر دیگر خطوں پر حملہ کرسکیں گے۔
صوابی کے شہری جن کا جناح سپر مارکیٹ میں جیولری اسٹال ہے، کا کہنا تھا کہ بڑھتی غربت کے باعث آپریشن کے ذریعے عسکریت پسندی کا مکمل خاتمہ شاید ممکن نہ ہوسکے۔
انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ مسائل جیسے مہنگائی اور بجلی کا بحران مزید بدتر ہوجائے گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ کسی مقبول بازار میں کام کرنا بہت خطرناک ہوگیا ہے اور یہاں اضافی گشت سے زیادہ کچھ کئے جانے کی ضرورت ہے، تاہم انہیں کسی ممکنہ دہشتگردی کی کارروائی کے حوالے سے مناسب اقدامات نظر نہیں آرہے۔