امریکہ کا نواز حکومت کے خاتمے پر اقتصادی پابندیوں کا انتباہ
واشنگٹن : پاکستان میں حکومت مخالف احتجاج سے اس ملک میں مستحکم جمہوری نظام کے قیام کی جدوجہد کو دھچکا پہنچا ہے۔
یہ بات امریکی کانگریس کے لیے تیار کی گئی ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے۔
پاکستانی سیاسی انتشار کے عنوان سے تیار کی جانے والی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کو کسی فوجی بغاوت سے ہٹائے جانے پر پاکستان کے لیے غیرملکی امداد پر جمہوریت سے متعلق امریکی پابندیوں کا ایک اور دور شروع ہوسکتا ہے۔
اس سے " نائن الیون کے بعد سے سب سے زیادہ ترجیحات والے امریکی امدادی پروگرامز غیرمعینہ مدت تک کے لیے روک سکتے ہیں"۔
رپورٹ میں مزید خبردار کیا گیا ہے کہ انتشار سے پاکستان کے ہندوستان سے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں کیونکہ خارجہ پالیسیوں پر فوج کا اثررسوخ بڑھ جائے گا۔
کانگریشنل ریسرچ سروس(سی آر ایس) کی تیار کردہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے" پاک فوج براہ راست پاکستان کی خارجہ اور سیکیورٹی پالیسیوں کا براہ راست کنٹرول سنبھال سکتی ہے، کچھ وقت کے بعد پاکستان کی افغانستان سے متعلق پالیسی فریم ورک میں تبدیلی لاتے ہوئے وہاں ہندوستانی اثررسوخ کا توڑ کرنے پر زور دیا جاسکتا ہے"۔
رپورٹ کے مطابق اگرچہ نواز شریف حکومت کے خاتمے کا کوئی بڑا خطرہ نہیں" تاہم متعددد مبصرین موجودہ انتشار سے نواز شریف کو کمزور ہوتا دیکھ رہے ہیں، یہ ملک میں جمہوریت پسندوں کے لیے بڑا دھچکا ہے جو اپنی آزادی کے بعد 67 سال کے دوران تین بار فوجی بغاوتوں کو دیکھ چکے ہیں"۔
رپورٹ میں امریکی قانون سازوں کو بتایا گیا ہے کہ احتجاج کے باوجود امریکی مفادات سے متعلق پاکستانی خارجہ یا سیکیورٹی پالیسیوں میں تبدیلی کا امکان نہیں، مگر امریکی حکومت پاکستان کے جمہوری نظام کو برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرنے کی خواہشمند ہے۔
سی آر ایس کے جنوبی ایشیائی امور کے ماہر اور رپورٹ کے مصنف ایلن کرونسٹاڈٹ نے بتایا" یہ انتشار پاک ہندوستان تعلقات میں بہتری کے مقصد کے لیے نیا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے، جبکہ اس سے خطے میں تعاون اور جنوبی ایشیاءمیں تجارت کی توقعات کو بھی دھچکا لگ سکتا ہے"۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے" چاہے نواز شریف چلے جاتے ہیں یا فوج کی حکومت اور مظاہرین کے درمیان مصالحت کار کی حیثیت سے مداخلت سے بچ جاتے ہیں، بیشتر تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ چونکہ انہوں نے مقامی سیکیورٹی پر سویلین کنٹرول کا مظاہرہ نہیں کیا اس لیے وہ کمزور پوزیشن پر چلے گئے ہیں"۔
سی آر ایس نے خبردار کیا کہ فوجی مداخلت کے پاکستان میں جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کی کوششوں پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق" مبصرین کو نہیں لگتا فوج حکومت کا براہ راست کنٹرول سنبھالنے کی خواہشمند ہے، کم از کم اس مرحلے پر جب وہ مغربی قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی میں مصروف ہے"۔
تاہم فوج ہوسکتا ہے کہ" ایک نرم بغاوت کا خیرمقدم کرے جس سے اسے خارجہ اور سیکیورٹی پالیسیوں کا مکمل کنٹرول سنبھالنے کا موقع مل سکے"۔
پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے مظاہروں کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف حکومت کو اس کی کمزوری پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے" سالانہ بجٹ سے قطع نظر پارلیمنٹ کسی ایک نئے قانون کی منظوری دینے میں بھی ناکام ہوگئی ہے، اہم عہدے جیسے وزیر خارجہ وغیرہ تاحال خالی ہیں اور ریگولیٹری اداروں کے سربراہان نہیں"۔
سی آر ایس نے کہا ہے کہ ن لیگ کی جماعت" ایک خاندان تک محدود ہوکر رہ گئی ہے، جبکہ نواز شریف آمرانہ انداز میں حکومت چلارہے ہیں اور انہوں نے پاکستانی گورننس سسٹم میں اصلاحات کو نظرانداز کردیا ہے"۔
رپورٹ کے مطابق نواز شریف حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات میں 2014 میں مزید بگاڑ آیا ہے جس کی وجہ نواز شریف کی جانب سے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی اجازت دیا جانا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے" نواز شریف اس کے بعد جیو نیوز کا دفاع کرتے رہے، اس چینیل کی جانب سے فوج پر اپنے ایک معروف صحافی کو قتل کرنے کی کوشش کا الزام لگایا، اس کے علاوہ وزیراعظم طالبان سے مذاکرات کی پالیسی کو آگے لے کر بڑھتے رہے حالانکہ دہشت گرد گروپ نے اپنے حملے جاری رکھے ہوئے تھے"۔
اس کے مقابلے میں فوج" آپریشن کی خواہشمند تھی" جبکہ فوجی قیادت نواز شریف کے ہندوستان سے دوستانہ تعلقات کی کوششوں سے ناخوش تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے" نواز شریف کا ملکی مسائل کو نظر انداز کرنا اور فوجی جنرلوں سے خراب تعلقات ان کے سیاسی مخالفین کو گلیوں میں لے آئے، جسے متعدد افراد فوج کی جانب سے خفیہ حمایت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں"۔