• KHI: Zuhr 12:29pm Asr 5:07pm
  • LHR: Zuhr 11:59am Asr 4:46pm
  • ISB: Zuhr 12:04pm Asr 4:54pm
  • KHI: Zuhr 12:29pm Asr 5:07pm
  • LHR: Zuhr 11:59am Asr 4:46pm
  • ISB: Zuhr 12:04pm Asr 4:54pm

ڈیزاسٹر منیجمنٹ' حکومتی ترجیحات' سے باہر

شائع September 12, 2014
جھنگ میں سیلاب سے متاثرہ افراد نقل مکانی کرتے ہوئے— اے ایف پی فوٹو
جھنگ میں سیلاب سے متاثرہ افراد نقل مکانی کرتے ہوئے— اے ایف پی فوٹو

اسلام آباد : وزیراعظم کی سربراہی میں قائم نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ کمیشن(این ڈی ایم سی) میں متعدد اہم حکومتی عہدیداران شامل ہیں اور اس ادارے کو قومی آفات کے خلاف ردعمل کے لیے قائم کیا گیا تھا، تاہم 2012 کے بعد سے اس کا ایک اجلاس تک نہیں ہوا۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ این ڈی ایم ایس کے آخری اجلاس میں 2010 اور 2011 کے سیلابوں سے پونے والی تباہی کے پیش نظر مستقبل میں قدرتی آفات کے خلاف ملکی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے پیش کیے جانے والے دس سالہ منصوبے کی تاحال توثیق نہیں کیونکہ اس ادارے کا دوبارہ اجلاس ہی نہیں ہوا۔

اسلام آباد کے ایک سنیئر ڈیزاسٹر منیجمنٹ عہدیدار کے مطابق این ڈی ایم سی کے سربراہ وزیراعظم خود ہیں اور اس میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ ، گورنرز، سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈرز، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹٰ سمیت دیگر اہم حکومتی ادارے جیسے ریلوے، موٹروے اتھارٹی اور دیگر کے نمائندگان شامل ہیں۔

یہ فورم ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں تمام اہم فیصلہ ساز اکھٹے ہوکر آفات سے نمٹنے کی پالیسیوں کا فیصلہ کرتے ہیں، اس کا آخری اجلاس فروری 2012 میں ہوا۔

ذرائع نے بتایا کہ اس اجلاس مٰں ایک ارب ڈالر مالیت کے نکاتی منصوبے کا مسودہ پیش کیا گیا تھا جس میں آئندہ دہائی کے لیے آفات سے مقابلے کے لیے ملکی تیاری کا خاکہ پیش کیا گیا تھا۔

منصوبے سے واقف حکام نے بتایا کہ اس اجلاس کے حوالے سے کچھ خاص آفیشل خدشات کو اٹھایا گیا تھاتاہم فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس منصوبے کی منظوری دی جائے گی مگر دو برسوں سے اس کمیشن کا اجلاس نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے منصوبے کی بھی منظوری نہیں دی جاسکی۔

تاہم این ڈی ایم اے کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ عدم منظوری کے باوجود اس منصوبے کے اہم پہلوﺅں پر عملدرآمد ہورہا ہے۔

پتن ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے سرور باری نے بھی این ڈی ایم سی کے فعال نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا" این ڈی ایم سی اور صوبائی ڈیزاسٹرمنیجمنٹ کمیٹیوں کے اجلاس بلاکسی تاخیر کے ہونے چاہئے"۔

ای ڈی ایم اے کے ترجمان احمد کمال نے ڈان کو بتایا کہ دسمبر2012 میں نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ ایکٹ کی منظوری کے بعد حکومت کو قومی، صوبائی اور ضلعی سطح پر ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹیز کی تشکیل کا اختیار مل گیا ہے۔

اگرچہ این ڈی ایم اے اور متعدد صوبائی ڈیزاسٹر اتھارٹیز موجود ہیں تاہم قانون کے مطابق تاحال ضلعی سطح پر ایسی اتھارٹیز کو تشکیل نہیں دیا جاسکا ہے۔

ترجمان نے مزید بتایا کہ این ڈی ایم سی کا اجلاس صرف وزیراعظم ہی طلب کرسکتے ہیں، اس کے برعکس این ڈی ایم اے کے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران متعدد اجلاس ہوئے ہیں۔

انہوں نے اصرار کیا کہ حکومت نے سیلاب سے نمٹنے کے لیے مکمل تیاری کی تھی۔

سیاسی مداخلت کو 2010 کے سیلاب میں سندھ اور بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں بڑی تباہی کا مرکزی سبب قرار دیا جاتا ہے، یہ الزامات بھی سامنے آئے تھے کہ چند سیاستدانوں نے حکام کے ساتھ مل کر سیلابی پانی کا رخ اپنی زمینوں سے موڑ کر دوسرے علاقوں کی جانب کردیا تھا۔

سرور باری کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو صرف ضلعی سطح پر ہی نمٹا جاسکتا ہے۔

تاہم احمد کمال نے ڈان کو بتایا " تمام متعلقہ اتھارٹیز کو تشکیل دیا جاچکا ہے، تاہم ابھی تک ضلعی سطح پر یہ اتھارٹیز فعال نہٰں ہوسکی ہیں کیونکہ انہیں مستقل سربراہان اور عملے کی کمی کا سامنا ہے"۔

ان کا کہنا تھا" تیس جون اور یکم جولائی کو میں اسلام آباد میں مون سون کی تیاریوں کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس میں شریک تھا، جس میں ممکنہ سیلاب پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا، چھ اگست کو محکمہ موسمیات نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا تھا کہ جولائی میں سالانہ اوسط سے تیس فیصد کم بارشیں ہوئیں اور توقع ہے کہ اگست میں بھی ایسا ہی سلسلہ رہے گا"۔

ان کے بقول شدید بارشیں غیرمتوقع تھیں اور ان سے بچنا مشکل تھا، مگر صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھاڑتی کے ایک سنیئر عہدیدار نے ترجمان کے دعوے کو مسترد کردیا۔ عہدیدار نے بتایا کہ یہ ٹھیک ہے کہ موسم کے رجحان کی درست پیشگوئی نہیں کی جاسکی تھی" محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کی تھی کہ بالائی پنجاب میں معمول کی جبکہ جنوبی و وسطی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں معمول سے کم بارشیں ہوں گی، مگر یہ پیشگوئی درست ثابت نہ ہوسکی"۔

اس کا کہان تھا کہ دنیا بھر میں ممالک اس طرح کی آفات سے نمٹنے کے لیے دس سے پچاس سال تک کے منصوبے تیار کرتے ہیں تاکہ غیرمتوقع قدرتی آفات سے نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکے، مگر پاکستان میں سیلاب ہر سال ہوتے ہیں مگر ان کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے جاسکے ہیں۔

عہدیدار کا کہنا تھا" ملک کی تاریخ میں شدید سیلاب کی تاریخ بہت پرانی ہے، 1952، 1976، 1992، 2007، 2010، 2011 اور 2014 کے برسوں میں بہت شدید سیلاب آئے، 2010 میں دریائے سندھ مٰں زیادہ پانی تھا مگر رواں برس دس ستمبر تک دریائے سندھ میں پانی کی سطح کم تھی اور سیلابی پانی چناب، راوی اور جہلم کے ذریعے آگے بڑھ رہا تھا"۔

اس عہدیدار نے بتایا کہ سندھ میں 2011 کا سیلاب شدید بارشوں اور نکاسی آب کا نظام بند ہونے کی وجہ سے آیا تھا جنھیں ایک سال پہلے آنے والے سیلاب کے مناسب طریقے سے دوبارہ تعمیر نہیں کای گیا تھا"۔

اس کا کہنا تھا" پنجاب 2011 کے سیلاب سے متاثر نہیں ہوا تھا، اگرچہ حکومت سیلاب سے تحفظ کا قومی منصوبہ ہر سال تیار کرتی ہے، جس میں فوج سے معاونت اور پشتوں کو توڑنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے"۔

عہدیدار نے اس بات پر زور دیا کہ مختصر اور طویل المدت اقدامات کے ذریعے ہی مستقبل میں اس طرح کی آفات سے بچا جاسکتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 6 مئی 2025
کارٹون : 4 مئی 2025