وزیراعظم نئی مرسڈیز کے ذریعے اٹارنی جنرل کو 'نوازنے' کے خواہشمند
اسلام آباد : سیاسی بحران میں اضافے اور اقتصادی تنزلی کے باوجود وزیراعظم میاں نواز شریف نے ایک اور 'استثنیٰ' حاصل کرلیا ہے جس نے متعدد بھنوﺅں کو اچکا دیا ہے۔
وزیراعظم نے اٹارنی جنرل آف پاکستان (اے جی) کے لیے چوبیس سو سی سی مرسڈیز بینز گاڑی خریدنے کی منظوری دے دی ہے۔
موجودہ اے جی سلمان اسلم بٹ نواز شریف کے فیورٹ تصور کیے جاتے ہیں، جبکہ وہ وزیراعظم اور ان کے کاندان کی جانب سے 2012 اور 2013 کے دوران متعدد مقدمات میں پیش ہوئے، جن میں سے شریف برادرز بیشتر کیسز میں کلئیر بھی قرار پائے۔
وزارت خزانہ سے حاصل کیے گئے دستاویزات کے مطابق اٹارنی جنرل ایسی گاڑی رکھنے کا حق رکھتے ہیں " جو سپریم کورٹ کے ایک جج کے لیے ہوتی ہے"۔
چیف جسٹس آپ پاکستان کے علاوہ اعلیٰ عدالت کے تمام ججز کو اٹھارہ سو سی سی گاڑیاں الاٹ کی گئی ہیں۔
دوسری جانب اے جی چوبیس سو سی سی گاڑی کو استعمال کریں گے وہیں دو سابق اٹارنی جنرلز نے ڈان کو بتایا کہ جب وہ دفتر میں تھے ان کے پاس صرف اٹھارہ سو سی سی ہنڈا گاڑیاں تھیں۔
مرسڈیز بینز ای 250 تیسری "مہنگی" گاڑی ہے جس کی خریداری کی وزیراعظم نے رواں برس مئی سے اب تک منظوری دی ہے۔
اس سے قبل دو بی ایم ڈبلیو 760 ایل آئی کو خریدا گیا تھا جو قومی خزانے کو 224 ملین کی پڑیں۔
ڈان کو دستیاب معلومات کے مطابق اے جی کے سیکرٹری جنگو خان راجپوت نے وزیرعظم کے سیکرٹری جاوید اسلم کو چار اگست کو سلمان اسلم بٹ کے لیے ایک چوبیس سو سی سی گاڑی فراہم کرنے کے لیے خط تحریر کیا تھا۔
عالم حالات کے دوران اے جی آفس اس طرح کی درخواستیں وزارت قانون کے ذریعے ارسال کرتا ہے، تاہم اس درخواست کے اگلے روز یعنی پانچ اگست کو وزیرعظم نے اے جی کے لیے ایک چوبیس سو سی سی گاڑی خریدنے کی منظوری دے دی۔
اٹھارہ اگست کو اے جی کے سیکرٹری نے وزیراعظم کی منظوری کو وزارت قانون تک پہنچایا اور مطالبہ کیا کہ وزارت تیرہ ملین روپے"مرسڈیز گاڑی کی خریداری کے لیے ٹیکنیکل سپلمنٹری گرانٹ" کی مد میں جاری کرے۔
وزارت قانون نے اس درخواست کو واپس وزیراعظم کے پاس اس نوٹ کے ساتھ بھجوا دیا گیا کہ اٹارنی جنرل ایسی گاڑی ہی رکھ سکتے ہیں جو سپریم کورٹ کے ججز کے پاس ہو، مگر وزیراعظم نے چوبیس سو سی سی گاڑی کی منظوری دے دی ہے۔
وزارت نے دو لائحہ عمل تجویز کیے پہلا' وزیراعظم اے جی کے لیے اٹھارہ سو سی سی گاڑی کی منظوری دیں یا دوسرا وہ اے جی کا استحقاق اٹھارہ سو سے بڑھا کر چوبیس سو سی سی کردیں، جبکہ یہ بھی واضح کیا جائے کہ ان کے لیے چوبیس سو سی سی مرسڈیز ہی خریدی جائے یا کوئی اور سستی مقامی یا غیرملکی برانڈ"۔
ڈان کو دستیاب دستاویزات کے مطابق بائیس اگست کو وزیراعظم نے" چوبیس سو سی سی گاڑی کی تجویز کردہ اصولوں کے مطابق منظوری دے دی"۔
اس کے بعد وزارت قانون نے یہ معاملہ فنانس ڈویژن کو بھجوا دیا اور درخواست کی" اس حوالے سے مزید ضروری اقدامات قوانین کے مطابق کیے جائیں"۔
فنانس ڈویژن نے انیس ستمبر کو تجویز دی"اگر لاءڈویژن اس کیس پر وضاحت چاہتا ہے تو اسے کابینہ ڈویژن میں اٹھایا جائے"۔
فنانس ڈویژن کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ وفاقی حکومت پہلے ہی ا جی کو اٹھارہ سو سی سی ہنڈا گاڑی فراہم کرچکی ہے اور بظاہر اس بات کی کوئی ضرورت نہیں آتی کہ لاءآفیسر کے لیے خاص طور پر مرسڈیز بنیز کی نئی گاڑی خریدی جائے۔
ذرائع نے کہا کہ ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے ججز یہاں تک کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ بھی سرکاری کاموں کے لیے اٹھارہ سو سی سی گاڑیاں استعمال کررہے ہیں۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ چوبیس سو سی سی گاڑی کی خریداری کی نظیر موجود ہے ان کے پیشرو چوہدری فاروق، عزیز اے منشی اور مخدوم علی خان چوبیس سو سی سی گاڑیاں استعمال کرتے رہے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس گاڑی کو صرف سرکاری کاموں کے لیے استعمال کیا جائے گا اور ذاتی استعمال کے لیے وہ پرائیوٹ گاڑی استعمال کریں گے، تاہم سابق اٹارنی جنرلز مخدوم علی خان اور عرفان قادر نے ڈان کو بتایا کہ وہ اپنے عہدے کے دوران صرف اٹھارہ سو سی سی ہنڈا گاڑیاں ہی استعمال کرتے رہے تھے۔
عرفان قادر نے کہا کہ ملک کے سب سے بڑے لاءافسر کی حیثیت سے اٹارنی جنرل چوبیس سو سی سی گاڑی کا مطالبہ کرسکتا ہے۔
مخدوم علی خان نے بتایا کہ 2001 سے 2007 کے درمیان جب وہ اٹارنی جنرل تھے، تب وہ پرانی ہنڈا سوک استعمال کرتے رہے جو 1994 میں خریدی گئی تھی۔
تبصرے (2) بند ہیں