دہشتگرد صرف طاقت کی ہی زبان سمجھتے ہیں، امریکی صدر
یونائیٹیڈ نیشنز : امریکی صدر بارک اوبامہ نے کہا ہے کہ دہشت گرد صرف طاقت کی زبان کو سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ مل کر "موت کے نیٹ ورک کو منتشر کردینا چاہتے ہیں"۔
امریکی صدر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شام میں القاعدہ سے منسلک دہشت گرد گروپس کے ہیڈکوارٹر اور بیسز پر فضائی حملوں کے احکامات دینے کے ایک روز بعد آئے جس میں درجنوں عسکریت پسند مارے گئے تھے۔
باراک اوبامہ نے اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا" شام اور عراق کے دہشت گردوں کے مظالم نے ہمیں اس تاریکی کے مرکز کو اس زبان میں جواب دینے پر مجبور کردیا جسے وہ سمجھتے ہیں اور ہے طاقت کی زبان"۔
انہوں نے کہا"امریکہ دیگر ممالک کے اتحاد کے ساتھ مل کر موت کے اس نیٹ ورک کا خاتمہ کرے گا"۔
صدر اوبامہ کا جنرل اسمبلی میں آمد پر پرجوش استقبال کیا گیا تاہم ان کی تقریر کے دوران یہ گرمجوشی نظر نہیں آئی۔
جب باراک اوبامہ یوکرائن کے معاملے پر بات کررہے تھے تو روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے اپنا سر جھکائے رکھا اور ایک کاغذ پڑھتے رہے، تقریر کے اگلے حصے میں وہ ایک چھوٹا کتابچہ پڑھتے رہے اور پھر اپنے اسمارٹ فون میں مگن ہوگئے۔
ایرانی نمائندوں نے بھی امریکی صدر کے خطاب پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
شامی حکومت کے نمائندگان جنھوں نے امریکی فوجی کارروائی کی مخالفت کی تھی کیونکہ واشنگٹن نے بشارالاسد حکومت کے ساتھ مل کر عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی پیشکش مسترد کردی تھی، وہ بھی خاموشی سے باراک اوبامہ کو بولتے دیکھتے رہے۔
باراک اوبامہ نے کہا کہ مسلم دنیا میں " پرتشدد انتہا پسندی کے کینسر" دنیا کی ترقی کو ڈی ریل کرے دے گا اور عالمی برادری کو دوسری جنگ عظیم دوئم جیسی صورتحال کا سامنا ہوگا۔
انہوں نے عالمی برادری پر اس چیلنج سے نمٹنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے عراق و شام میں سرگرم تنظیم ریاست اسلامیہ سے نمٹے جسے مکمل طور پر تباہ کرنا ضروری ہے۔
ان کا کہان تھا کہ یہ گروہ عراق اور شام دونوں ممالک میں دہشت پھیلا رہا ہے، وہ عصمت دری کو شہریوں کو ڈرانے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے، صحافیوں کے سرقلم اور بچوں کو قتل کررہا ہے۔
امریکی صدر نے کہا"کوئی بھی خدا اس دہشت کو معاف نہیں کرسکتا، ان کے اقدامات کو جائز قرار نہٰں دیا جاسکتا، اس طرز کے شیطان کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے"۔
انہوں نے مزید کہا"اس حوالے سے ہم تنہا کارروائی نہیں کررہے اور نہ ہی امریکی فوجیوں کو غیرملکی سرزمین پر بھیج رہے ہیں"۔
انہوں نے مزید کہا کہ چالیس اقوام جن میں عرب اور مسلم ریاستیں بھی شامل ہیں عسکریت پسندوں کے خلاف امریکی سربراہی میں جنگ کی حمایت کررہی ہیں۔
انہوں نے ریاست اسلامیہ میں شامل ہونے والوں کو خبردار کیا"جنگ کے میدان سے نکل جائیں جو اس نفرت انگیز مقصد کے لیے لڑائی جاری رکھیں گے وہ خود کو تنہا محسوس کرنے لگے گے، ہم ان خطرات سے ڈر کر پیچھے نہیں ہٹیں گے اور ہم ان لوگوں کے لیے کارروائی کریں گے جو مستقبل کو تعمیر کرنا چاہتے ہیں نا کہ ان کے لیے جو اسے تباہ کرنا چاہتے ہیں"۔
امریکی صدر نے کہا کہ انہوں نے عرب اور مسلم ممالک کو ایک سادہ پیغام بھیجا ہے"کہ وہ اپنے لوگوں خاص طور پر نوجوانوں پر بہت زیادہ توجہ دیں"۔
مسلم دنیا کے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا" آپ عظیم روایات کے حامل ہیں جو تعلیم کے لیے کام کرتی ہیں اسے نظر انداز کرنے کے لیے نہیں، تباہی نہیں تخلیق، قتل نہیں زندگی کا احترام جیسی روایات آپ کا حصہ ہیں، جو لوگ آپ کو اس راستے سے ہٹنے کا کہہ رہے ہیں وہ ان روایات کا دفاع نہیں بلکہ اس سے غداری کررہے ہیں"۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ روس پر عائد پابندیوں کو اس صورت میں ہٹاسکتے ہیں جب وہ یوکرائن کے پرامن سوچ پر عمل کرے۔