• KHI: Zuhr 12:29pm Asr 5:07pm
  • LHR: Zuhr 11:59am Asr 4:47pm
  • ISB: Zuhr 12:04pm Asr 4:55pm
  • KHI: Zuhr 12:29pm Asr 5:07pm
  • LHR: Zuhr 11:59am Asr 4:47pm
  • ISB: Zuhr 12:04pm Asr 4:55pm

قاتلوں اور زیادتی کے ملزمان کے لیے قصاص رہائی کا ذریعہ

شائع December 6, 2014
— رائٹر فائل فوٹو
— رائٹر فائل فوٹو

اسلام آباد : عدالت سے باہر تصفیے اگر درست ہوں تو اس سے عدالتی نظام پر بوجھ کم کیا جاسکتا ہے مگر قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ حالیہ مقدمات میں اس طرح کے راضی ناموں کے نتائج سے انصاف کا خون ہوا ہے۔

اس حوالے سے متعدد مثالیں بھی موجود ہیں جس میں فوجداری مقدمات کے ملزمان رہائی پانے میں کامیاب ہوگئے۔

ایسی پہلی مثال ایک ایسے ملزم کی ہے جس پر کم از کم دو لڑکیوں کی زیادتی اور قتل کا مقدمہ تھا اور اس نے عدالت سے باہر تصفیے کے لیے بات چیت کی کوشش کی۔

نیشنل یونیورسٹی آف مارڈن لینگویجز سے فارغ التحصیل اس ملزم پر الزام تھا کہ اس نے اپنی گرل فرینڈ کو دیگر خواتین سے ناجائز تعلقات قائم کرنے کے لیے استعمال کیا، اس شخص نے خود کو ایڈز کا مریض قرار دیتے ہوئے اپنی گرل فرینڈ کو بتایا کہ زیادہ عورتوں سے جسمانی تعلق سے اس کا علاج ہوسکتا ہے۔

حلفی بیانات کے مطابق اس گرل فرینڈ نے ملزم کو پانچ خواتین سے ملوایا جس میں سے اس نے کم از کم دو کو زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کیا اور ان کی لاشوں کو جلا دیا جس کی وجہ بظاہر شواہد کو چھپانا لگتا ہے۔

اس ملزم کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب لڑکیوں کے گھروالوں نے ان کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی، پولیس نے اس جوڑے کو فروری 2013 میں گرفتار کیا اور بعد ازاں ان کے خلاف ٹرائل کا آغاز ہوا۔

جب یہ مقدمہ اختتامی مراحل میں داخل ہوا تو قتل ہونے والی ایک لڑکی کے والد تصفیے کے لیے تیار ہوگئے، انہوں نے عدالت کے سامنے اپنا بیان بدل دیا اور پراسیکیوشن نے اس نئے بیان کو چیلنج کرتے ہوئے انہیں منحرف گواہ قرار دے دیا۔

پراسیکیوشن نے ملزم کے خلاف اپنا موقف برقرار رکھا ہوا ہے اور سرکاری وکیل استغاثہ عامر ندیم تابش نے ڈان کو بتایا کہ پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) میں سنگین جرائم جیسے زیادتی، اغوا، شواہد کو چھپانا یا ختم کرنا ایسے جرائم ہیں جن پر مصالحت نہیں ہوسکتی۔

پراسیکیوشن کا موقف ہے کہ ملزم پر پی پی سی کی دفعات 302 (قتل)، 364-A (اغوا) اور 376 (زیادتی) عائد کی گئی ہیں اور تصفیہ صرف دفعہ 302 کے تحت ہی ممکن ہے جو ایک قابل مفاہمت جرم ہے۔

سابق پولیس افسر اور اب قانونی ماہر سلیم اللہ خان نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جرائم کی شرح میں بتدریج اضافے کی وجوہات میں سے ایک اس طرح کے تصفیے بھی ہیں۔

اسلام آباد پولیس کے پاس دستیاب اعداد و شمار کے مطابق دارالحکومت میں 2011 میں زیادتی کے 222 واقعات رپورٹ ہوئے مگر دو سال بعد یعنی 2013 میں یہ تعداد 303 تک جا پہنچی۔ اسی طرح 2011 میں قتل کے 117 واقعات رپورٹ ہوئے مگر 2012 میں یہ تعداد بڑھ کر 128 ہوگئی۔

پھر گزشتہ ہفتے اپنا بیان بدل دینے والے مقتول لڑکی کے والد نے اسلام آباد کے ضلعی و سیشن جج کے سامنے ایک درخواست دائر کی جس میں شکایت کی گئی تھی کہ ملزم کے خاندان نے اسے وعدے کے مطابق دس لاکھ روپے کی بجائے صرف سات لاکھ روپے ہی ادا کیے ہیں۔

یہ حالیہ عرصے میں سامنے آنے والا کوئی واحد مقدمہ نہیں۔

اسلام آباد کے نواحی علاقے پندوریان میں رواں برس ستمبر میں قتل کی جانے والی ایک نو سالہ بچی کے خاندان نے بھی مبینہ قاتل سے عدالت سے باہر تصفیہ کرکے معافی دے دی۔

اس مقدمے سے منسلک ایک وکیل نے ڈان کو بتایا کہ اس ملزم نے مبینہ طور پر بچی کو نشے کی حالت میں فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا، غم زدہ خاندان نے طویل مقدمے بازی کے خوف کے باعث پچاس لاکھ قصاص کے عوض قاتل کو معاف کردیا، اس معاملے کی سماعت اب بارہ دسمبر کو ہوگی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جب کوئی مقدمہ دفعہ 302 کے تحت درج ہوتا ہے تو مبینہ قاتل تصفیے کی بنیاد پر عدالت سے رہا ہوسکتا ہے۔

کیس کے پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ مبینہ قاتل کے ایک شریک کار کے لیے حالات میں تبدیلی نہیں آئی، اعانت جرم کے ملزم کی مقتولہ کے خاندان سے مفاہمت نہیں ہوئی جس کا مطلب ہے کہ اس مقدمے میں ابھی بھی اس پر ٹرائل چلایا جاسکتا ہے۔

اس سے پہلے 2012 میں سپریم کورٹ نے ایک ازخود نوٹس اس وقت لیا تھا جب راولپنڈی میں ایک تیرہ سالہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنانے والے چار ملزمان کو بھی عدالت سے باہر تصفیے کے بعد رہا کردیا گیا تھا۔

پراسیکیوشن کے مطابق زیادتی کا یہ واقعہ 21 مارچ کو پیش آیا جس کے بعد متاثرہ بچی نے خودکشی کی بھی کوشش کی تاہم اسے بچالیا گیا۔

مگر راولپنڈی کی ایک سیشن عدالت نے ملزمان کو اس وقت بری کردیا جب متاثرہ بچی کے والد نے ملزمان کے حق میں بیان دیتے ہوئے عدالت میں کہا کہ "اس نے انہیں پہچاننے میں غلطی کی تھی"۔

ریاست علی آزاد سپریم کورٹ کے ایک ایڈووکیٹ ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ جنسی زیادتی ناقابل مصالحت جرم ہے جس پر عدالت سے باہر تصفیہ ممکن نہیں مگر ملزمان نے بچی اور اس کے خاندان کو دھمکا کر یا مالی تصفیے کو قبول کرنے کے لیے دباﺅ ڈال کر خود کو مشکل سے نکال لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت سے باہر تصفیے قتل کے مقدمات میں پی پی سی کی دفعہ 3.23 کے تحت ہوتے ہیں جس میں ورثاء کو قصاص کی ادائیگی کی جاتی ہے۔

سول سوسائٹی نے متعدد مواقعوں پر اس طرح کے سمجھوتوں پر تشویش کا اظہار کیا جس میں معاشرے کے مظلوم طبقے کو مراعات یافتہ افراد کی جانب سے مفاہمت کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن طاہرہ عبداللہ نے ڈان کو بتایا کہ راضی ناموں کی درخواستیں اور دستبرداری نے خواتین کے خلاف پرتشدد جرائم کو فروغ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل میں ملزمان کو بھی اس طرح کے غیرمنصفانہ راضی ناموں سے فائدہ ہوتا ہے۔

سلیم اللہ خان جو انسپکٹر جنرل پولیس کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکے ہیں، نے نکتہ اٹھایا کہ اس طرح کی مفاہمت سے قومی خزانے پر بھی بوجھ پڑتا ہے کیونکہ پولیس اہلکاروں کی کسی کیس کی تفتیش کے لیے توانائی اور وسائل کی واپسی ممکن نہیں ہوتی۔

علاوہ ازیں پراسیکیوٹرز کی فیس اور قانونی اخراجات بھی اس طرح کے مقدمات میں بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

انہوں نے تجویز دی کہ عدالت سے باہر تصفیوں کی حوصلہ شکنی کے لیے عدالتوں کو اس طرح کے مقدمات کے قانونی اخراجات کی ادائیگی کا بوجھ ملزمان کے سر پر ڈالنا چاہئے۔

کارٹون

کارٹون : 7 مئی 2025
کارٹون : 6 مئی 2025