سابق کرکٹر کا بھائی جعلی ڈگری پر پی آئی اے پائلٹ بن گیا
اسلام آباد : پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کوچ اور موجودہ ہیڈ کوچ وقار یونس کے چھوٹے بھائی کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ اسے جعلی تعلیمی دستاویزات پر پی آئی اے میں پائلٹ بھرتی کرلیا گیا۔
اس بات کا انکشاف قومی اسمبلی کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں ایوی ایشن ڈویژن کی ایک آڈٹ رپورٹ کی اسکروٹنی کے دوران ہوا۔
ابتداءمیں سیکرٹری ایوی ایشن ڈویژن محمد علی گردیزی اور پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز (پی آئی اے) کے منیجنگ ڈائریکٹر شاہنواز رحمان نے پائلٹ فیصل یونس کے رشتے کے حوالے سے بے خبری کا اظہار کیا۔
تاہم پی اے سی کے سوالات اور مکمل تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت کے بعد محمد علی گردیزی نے کمیٹی کو بتایا کہ فیصل قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ وقار یونس کے چھوٹے بھائی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پی آئی اے نے فیصل یونس کو ایک کیڈٹ پائلٹ کے طور پر تیرہ نومبر 2003 کو پانچ سالہ کنٹریکٹ پر بھرتی کیا تھا۔ اس کی تعیناتی کے تین سال بعد تعلیمی ریکارڈ کی تصدیق کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا کہ فیصل کی گریجویشن کی ڈگری جعلی ہے۔
آڈٹ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ 2010 میں فیصل کو سزا سناتے ہوئے تین سالہ کی سنیئرٹی کی تخفیف کردی گئی۔
اسی دورانیے میں فیصل نے کامرس میں ایک ڈپلوما پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ گریجویشن کی ڈگری کے مساوی ہے۔
آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پائلٹ کو برطرف کرنے کی بجائے پی آئی اے انتظامیہ نے اسے قومی فضائی کمپنی میں بطور پائلٹ کام کرنے کی اجازت دے دی۔
سیکرٹری ایوی ایشن اور پی آئی اے منیجنگ ڈائریکٹر اس تعیناتی کا دفاع کرتے رہے اور ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے نے فیصل کی تربیت پر بھاری سرمایہ لگایا ہے اور اسے بوئنگ 777 کے پائلٹ کے طور پر بھرتی کیا گیا ہے۔
پی اے سی کے ایک رکن جنید انور چوہدری نے کہا " یہ کوئی ڈائیوو بس نہیں، کمرشل پائلٹ لازمی طور پر اتنا تعلیم یافتہ ہونا چاہئے کہ پیچیدہ آلات پر لکھی ہدایات کو پڑھ سکے"۔
سیکرٹری ایوی ایشن نے جواب میں بتایا کہ ابتدائی طور پر کمرشل پائلٹ کی کوالیفکیشن میٹرک اور ایک کمرشل پائلٹ لائسنس (سی پی ایل) تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیصل نے اپنا سی پی ایل تعیناتی کے موقع پر جمع کرایا تھا ۔
اس وقت تک فیصل کا رشتہ سامنے نہیں آیا تھا اور پی اے سی کی کارروائی کی کوریج کرنے والے بیشتر صحافی اس کی حقیقت جاننے کے منتظر تھے، کچھ رپورٹرز کا خیال تھا کہ فیصل ہوسکتا ہے کہ پی آئی اے کے کسی سابق منیجنگ ڈائریکٹر کا بیٹا ہو۔
پی اے سی کے رکن محمود خان اچکزئی نے اس موقع پر پوچھا " فیصل یونس کون ہے"۔
پی آئی اے انتظامیہ نے اس موقع پر فیصل کی شناخت سے لاعلمی کا اظہار کیا اور سیکرٹری نے کہا " ہم اس کے بارے میں یا اس کے خاندانی پس منظر کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتے"۔
محمود خان اچکزئی نے کہا " ہم اس کے رشتے، اس کے پس منظر کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں اور ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کہاں پیدا ہوا اور اس کا ڈومیسائل کہاں کا ہے اور کس نے اسے پی آئی اے میں جعلی دستاویزات پر بھرتی کیا"۔
پھر سیکرٹری ایوی ایشن نے خاموشی کو توڑتے ہوئے بتایا " وہ کرکٹر وقار یونس کا بھائی ہے"۔
جس پر محمود خان اچکزئی نے کہا " اسے کسی اور ادارے میں ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے مگر یہ قابل برداشت نہیں کہ یہ جاننے کے باوجود کہ اس کے پاس جعلی ڈگری ہے اسے پی آئی اے میں جگہ دی گئی"۔
جنید انور چوہدری نے سوال کیا " پی آئی اے نے فیصل کی تربیت پر کتنا سرمایہ لگایا ہے"۔
سیکرٹری ایوی ایشن نے جواب دیا کہ پی آئی اے نے فیصل کی ابتدائی تربیت پر 35 ہزار ڈالرز خرچ کیے۔
پی اے سی چیئرمین سید خورشید احمد شاہ نے پی آئی اے انتظامیہ کو فیصل کا مکمل ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی " اگر آپ کے پاس اس وقت تفصیلات نہیں تو ہم اسکروٹنی کا عمل اگلے اجلاس تک موخر کردیتے ہیں"۔
پی آئی اے کے ایم ڈی نے کمیٹی کو بتایا کہ وہ اب تک 260 ملازمین کو جعلی ڈگریوں پر ہٹا چکے ہیں اور باقی عہدیداران کی ڈگریوں کی تصدیق کا عمل جاری ہے۔
پی اے سی رکن سردار عاشق گوپنگ نے کہا کہ جب ایک سیاستدان کو جعلی ڈگری پر فوجداری مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پھر پی آئی انتظامیہ فیصل سمیت دیگر جعلی ڈگری رکھنے والے ملازمین کے خلاف ایف آئی آر کیوں نہیں درج کراتی۔