عدالتی فیصلے پر ممتاز قادری کے وکلاءمیں خوشی کی لہر
اسلام آباد : فیصلے کے چند منٹوں بعد ہی جشن منانے کا احساس اسلام آباد ہائیکورٹ (آئی ایچ سی) کے احاطے میں پیدا ہوگیا جہاں ممتاز قادری کے حامیوں نے ہر اس شخص میں مٹھائی تقسیم کرنا شروع کردی جو ان کی خوشی میں شریک ہونے کے لیے تیار تھا۔
ان کی خوشی کو عدالت میں ممتاز قادری کا دفاع کرنے والوں نے بھی شیئر کیا۔
اگرچہ آئی ایچ سی نے ممتاز قادری کے خلاف سابق گورنر سلمان تاثیر کے قتل کا مقدمہ برقرار رکھا تاہم ملزم کے وکلاءدہشتگردی کی دفعات ختم ہونے پر خوش نظر آئے۔
ایلیٹ فورس کے سابق کمانڈو ممتاز قادری نے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو اسلام آباد کوہسار مارکیٹ میں چار جنوری 2011 کو گولی مار کر قتل کردیا تھا۔
راولپنڈی میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے اسے اکتوبر 2011 میں مجرم قرار دیا تھا اور انسداد دہشتگردی ایکٹ کی دفعہ سات اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 کے تحت دو مرتبہ سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا۔
جسٹس نور الحق قریشی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے انسداد دہشتگردی کے تحت دی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دے دیا تاہم پینل کوڈ کی دفعہ 302 کے تحت دی گئی سزائے موت کو برقرار رکھا گیا۔
اس کا مطلب ہے کہ ممتاز قادری قتل کا مجرم تو ہے مگر دہشتگردی کا نہیں۔
عدالتی فیصلے کے اعلان کے بعد ممتاز قادری کے وکلاءاسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کے دفتر میں اکھٹے ہوگئے۔
انہوں نے جسٹس ریٹائرڈ میاں نذیر احمد، ممتاز قادری کے سنیئر قانونی مشیر کو مبارکباد دی اور وکلاءمیں مٹھائی تقسیم کی۔
کچھ نے تو برجستہ، شعلہ بیان تقاریر کین اور سلمان تاثیر کے قاتل کے حق میں نعرے لگائے۔
اس جشن کا کچھ دیر تک نظارہ کرنے کے بعد ہائیکورٹ بار کے صدر راجا علیم خان عباسی جو پیپلزپارٹی سے مضبوط تعلق رکھتے ہیں، کمرے سے نکل گئے اور کہا کہ انہیں ایک مقدمے میں پیش ہونا ہے۔
جب جوش ختم ہوگیا تو ممتاز قادری کے قانونی مشیر جسٹس ریٹائرڈ نذیر احمد نے ڈان کو بتایا " گلاس آدھا بھرا ہوا ہے اور آدھا خالی نہیں، عدالت نے میرے موکل کو آدھا انصاف فراہم کیا ہے"۔
فیصلے کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا " دہشتگردی کی دفعات ہٹائے جانے کے بعد ممتاز قادری کی ستائش اب کوئی جرم نہیں رہا "۔
ان کا کہنا تھا کہ تحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت " دہشتگردی کے مجرم کی ستائش کرنا ایک قابل دست اندازی پولیس جرم ہے"۔
مگر اب ممتاز قادری ایک " دہشتگرد" نہیں رہا اور اس کی ستائش کوئی جرم نہیں رہی۔
تاہم عالتی فیصلے میں صرف یہی نہیں تھا، اور قادری کی ٹیم کی جانب سے یہ تبادلہ خیال بھی کیا جارہا ہے کہ اپیل دائر کی جائے کہ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں اس کا ٹرائل منصفانہ نہیں، اگرچہ اب ممتاز قادری پر انسداد دہشتگردی ایکٹ کا چارج نہیں رہا۔
جب جسٹس ریٹائر نذیر احمد سے پوچھا گیا کہ کیا ممتاز قادری کے وکلاءاب عدالت سے درخواست کریں گے کہ اس مقدمے کو دوبارہ ٹرائل کے لیے سیشن کورٹ بھیجا جائے کیونکہ انسداد دہشتگردی کی عدالت عام مقدمات کی سماعت نہیں کرتی تو ان کا جواب تھا " اگر کیس دوبارہ ٹرائل کے مرحلے پر جاتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ اسے فوجی عدالت میں منتقل کردیا جائے"۔
ان کا کہنا تھا کہ مستقبل کی حکمت عملی دیگر وکلاءاور ممتاز قادری کے والد کی مشاورت سے تیار کی جائے گی " ہر ایک کو فیصلے میں شامل کیا جائے گا کہ ہمیں سپریم کورٹ میں ان کی سزا ئے موت کے خلاف اپیل کی جائے یا نہیں"۔
دوسری جانب حکومتی وکلاءنے سختی سے ہونٹ بند کرلیے اور یہ وضاحت نہیں کی کہ ریاست اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی یا نہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد میاں عبدالرﺅف نے بتایا کہ وہ اس وقت تک کوئی تبصرہ نہٰں کرسکتے تھ جب تک فیصلے کو چیلنج کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں طے نہیں کرلیتی۔
وفاقی حکومت کے ایک سنیئر قانونی عہدیدار نے نام چھپانے کی شرط پر پیشگوئی کی کہ اس بات کے بہت کم امکانات ہیں کہ حکومت اپیل کی جانب جائے گی۔
اس کا کہنا تھا " حکومت کے لیے فیصلے کو چیلنج کرنا مشکل ہے کیونکہ وکلاءکی جانب سے مقدمے میں حکومتی طرف سے پیش ہونے پر انکار کیا جاتا رہا ہے"۔
قانونی ماہرین نے نکتہ اٹھایا ایک اور جھول اس فیصلے سے ممتاز قادری کو فائدہ پہنچائے گا۔
سپریم کورٹ کے ایک ایڈووکیٹ راجا عامر عباس حسن نے کہا کہ پاکستان پینل کوڈ کے تحت سزا کا مطلب ہے کہ اب ممتاز قادری قابل راضی نامہ جرم کا مجرم ہے۔
اس قسم کے مجرم عدالت سے باہر تصفیے کی کوشش اور آپشن کو اختیار کرتے ہیں تاہم انسداد دہشتگردی سے سزا پانے والوں کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
انہوں نے نکتہ اٹھایا کہ اگر تاثیر فیملی نے معاف کردیا تو ممتاز قادری رہا بھی ہوسکتا ہے۔
فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر آئی ایچ سی کی عمارت کے گرد سخت سیکیورٹی تھی، پولیس کے خصوصی دستے عدالت کے داخلی دروازے پر تعینات تھے۔
فیصلہ سنانے والی عدالت میں داخلے کو بھی محدود کردیا گیا تھا ۔
ایک ڈپٹی رجسٹرار اور اسسٹنٹ رجسٹرار بھی عدالتی کمرے کے اندر موجود تھے تاکہ عدالت کے اندر صورتحال کو مانیٹر کرسکیں۔