حکومت لکھوی کے مقدمے کی پیروی میں غیرسنجیدہ؟
اسلام آباد : حکومت کی قانونی ٹیم ممبئی حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ ذکی الرحمان لکھوی کو حراست میں رکھنے کے لیے سنجیدہ نظر آئی کیونکہ اس نے اسلام آباد ہائیکورٹ (آئی ایچ سی) میں متعلقہ ریکارڈ پیش نہیں کیا جبکہ لکھوی کی نظربندی کی توسیع کے معاملے کو ریویو بورڈ کو تاخیر سے ریفر کیا۔
تیرہ مارچ کو آئی ایچ سی نے ذکی الرحمان لکھوی کو نظربند رکھنے کے احکامات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوشن ایسا مواد پیش کرنے میں ناکام رہا ہے " جس کی بنیاد پر تحقیق کی جاسکے کہ پٹیشنر (لکھوی) کی نظربندی جائز ہے"۔
لکھوی کو اٹھارہ دسمبر 2014 کو ایم پی او کے تحت اس وقت نظربند کیا گیا اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے اس کی ضمانت بعد ازگرفتاری کی منظوری دے دی۔
عدالت نے 29 دسمبر کو لکھوی کی جانب سے نظربندی کے احکامات معطل کرنے کے لیے دائر ایک پٹیشن کی سماعت کی تاہم سات جنوری کو سپریم کورٹ نے لکھوی کی نظربندی بحال کردی اور آئی ایچ سی کو ہدایت کی کہ اس معاملے پر فیصلہ وفاقی حکومت کا موقف سننے کے بعد کیا جائے۔
سماعت کے دوران حکومتی وکلاءنے انکشاف کیا کہ " مواد (لکھوی کی حراست سے متعلق) صرف دو روز قبل ریویو بورڈ کو ریفر کیا گیا ہے"۔
یہ تکرار تیرہ مارچ کے فیصلے کا باعث بنی، عدالت نے مزید کہا کہ حکومتی وکلاءنے " اعتراف کیا ہے کہ قانونی ضرورت ہے (ریویو بورڈ) کہ آخری نظربندی کے حکم کے ختم ہونے سے پندرہ روز پہلے رجوع کیا جائے جو کہ اسلام آباد کے ضلعی مجسٹریٹ نے جاری کیا تھا"۔
اٹھارہ دسمبر کے بعد سے ضلعی مجسٹریٹ نے لکھوی کی نظربندی کے لیے تین بار احکامات جاری کیے، پہلا حکم اٹھارہ دسمبر، دوسرا سولہ جنوری جبکہ تیسرا تیرہ فروری کو جاری ہوا جو کہ تیرہ مارچ کو ایکسپائر ہورہا تھا۔
قانون کے مطابق یہ معاملہ ریویو بورڈ کو 28 فروری تک یا اس سے پہلے ریفر کیا جانا چاہئے تھا۔
ریویو بورڈ کی تشکیل آئین کے آرٹیکل 10 کے سکشن 4 کے تحت عمل میں آتی ہے تاکہ مقدمات کا جائزہ لیا جاسکے۔
آرٹیکل 10 کے مطابق ضلعی مجسٹریٹ کسی فرد کی نظربندی میں توسیع تین ماہ سے زائد عرصے تک نہیں کرسکتا اور صرف ریویو بورڈ ہی مزید توسیع کرسکتا ہے وہ بھی ایک سال تک۔
آئی ایچ سی نے بارہ مارچ کو یعنی جسٹس نورالحق قریشی کی جانب سے نظربندی کے احکامات کالعدم قرار دینے سے ایک دن پہلے تین رکنی ریویو بورڈ تشکیل دیا تھا جو جسٹس شوکت عزیز صدیقی، جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل تھا۔
آئی ایچ سی کو گیارہ مارچ کو لکھوی کی سماعت کے دوران آگاہ کیا گیا تھا کہ ملزم کی قسمت کا فیصلہ ریویو بورڈ کرے گا جہاں مقدمے سے متعلق مواد بورڈ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
تیرہ مارچ کے فیصلے میں جسٹس نور الحق قریشی نے کہا کہ مدعا علیہ ، جو اس مقدمے میں وفاقی حکومت ہے ، نے عدالت کے سامنے ایسا کوئی مواد پیش نہیں کیا جو وہ ریویو بورڈ کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے " قانون مواد کو آئینی دائرہ اختیار کی مشق سے پہلے ہائیکورٹ کے سامنے پیش کرنے کا پابند بناتا ہے۔ اس طرح کا گریز خود مدعا علیہ کی بدنیتی کو ثابت کرتا ہے، جس نے اس معاملے پر عجلت میں فیصلہ کرنے کی بجائے اسے غیرمعینہ مدت تک توسیع دینا چاہتا ہے"۔
ایک سنیئر لاءآفیسر نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد میاں عبدالرﺅف لکھوی کی نظربندی کی توسیع کے حوالے سے ضلعی انتظامیہ کو قانونی رائے دینے کے ذمہ دار ہیں۔
اس نے بتایا " وہ آئی ایچ سی میں اس مقدمے کی وکالت کررہے تھے اور یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ عدالت کے سامنے ریکارڈ پیش کرتے"۔
لاءآفیسر نے کہا کہ جسٹس نورالحق قریشی کی جانب سے نظربندی کے احکامات کو کالعدم قرار دینے کے بعد اب آئی ایچ سی کا ریویو بورڈ اس معاملے کو نہیں اٹھاسکتا۔
پنجاب حکومت نے بھی لکھوی کی نظربندی کا ایک حکم جاری کیا ہے اور اس معاملے کو لاہور ہائیکورٹ کے ریویو بورڈ کو ریفر کیا جاسکتا ہے اگر لکھوی کو اگلے تین ماہ کے لیے نظربند رکھنا چاہتی ہے۔
رابطہ کرنے پر میاں عبدالرﺅف نے ڈان کو بتایا کہ اس معاملے پر وفاقی حکومت کی نمائندگی کرنے کے باعث وہ لکھوی کی نظربندی پر کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے ۔