'اسرائیل کو تسلیم کرنا جوہری معاہدہ سے مشروط نہیں'
واشنگٹن: امریکی نے اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے مطالبے کو مسترد کردیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ ایران کو جوہری معاہدے سے قبل قائل کرے کہ وہ اسرائیل کی یہودی ریاست کے وجود کو تسلیم کرے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی خاتون ترجمان میری ہارف کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ صرف جوہری مسئلے پر ہونے جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے اس مسئلے کو دیگر مسائل سے ایک مقصد کے تحت علیحدہ رکھا ہے'۔
گزشتہ ہفتے اسرائیلی کیبنٹ نے امریکا سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اسرائیل کی یہودی ریاست کو تسلیم کرنے کی شرط کو ایران کے جوہری معاہدے کا حصہ بنایا جائے۔
تاہم میری ہارف کا کہنا تھا کہ مذکورہ 'معاہدہ پہلے ہی کافی پیچیدہ' ہے اور اس کے ساتھ کسی دوسرے معاہدے کو شامل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے موجود انتہائی خطرناک ریکارڈ اور ان کی جانب سے دہشت گردی کی مبینہ حمایت کرنے جیسے معاملات پر امریکا کو ایران سے شدید اختلافات ہیں۔
میری ہارف کا کہنا تھا کہ تاہم ’ان مسائل کو ایران کے جوہری مسئلے سے علیحدہ رکھا گیا ہے‘۔
انھوں نے کہا کہ اگر مقامی مسائل کو حل کرنے کی کوششیں کی جاتی تو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا جیسا کہ ایران کی جانب سے کیا جارہ تھا۔
امریکی عہدیدار نے کہا کہ 'میں یہ نہیں جانتی کہ ان ایشوز پر مذاکرات کرنے میں کتنا وقت درکار ہوگا تاہم ایسا کرنے سے جوہری مسئلہ اپنی جگہ پر قائم رہے گا'۔
ان کا کہنا تا کہ دیگر مسائل سے نمٹنے اور ان کا انسداد کرنے کے لیے امریکا کے پاس دیگر راستے موجود ہیں۔
میری ہارف نے دیگر مسائل کی تصفیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ان میں ایک ایران کے جوہری معاہدے پر سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کو لاحق تشویش بھی شامل ہے، جس کے مطابق اس معاہدے کے باعث ایران مشرق وسطیٰ میں اپنے اثرو رسوخ کو بڑھانے کی کوششیں کرے گا۔