• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

نصاب کے ذریعے نوآبادیاتی ذہنیت کی آبیاری

شائع April 9, 2015
درسی کتب مرتب کرنے والے ماہرین تعلیم نے اتنی احتیاط برتی ہے کہ ہمیں ان کتابوں میں نوآبادیات کا لفظ تک نہیں ملتا۔ — اے ایف پی/فائل
درسی کتب مرتب کرنے والے ماہرین تعلیم نے اتنی احتیاط برتی ہے کہ ہمیں ان کتابوں میں نوآبادیات کا لفظ تک نہیں ملتا۔ — اے ایف پی/فائل

پنجاب کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے کتنے طلباء کو اس بات کا علم ہے کہ برطانوی آبادکاروں نے 29 مارچ 1849ء میں پنجاب پر اپنا قبضہ کر لیا تھا اور اس کے بعد برطانوی آبادکاروں کی برعظیم میں فتوحات مکمل ہوگئیں۔

یونیورسٹیوں میں سائنس اور سماجی علوم کے مضامین پڑھنے والے کتنے طلباء ایسے ہیں کہ جنہیں اس بات کا اندازہ ہو کہ انگریزوں نے اس دن اس خطے کو اپنے کنڑول میں لینے کے بعد پنجاب کے مرکز لاہور میں برطانوی سامراج کا جھنڈا لہرایا، اس آخری قبضے سے پہلے پورے ہند میں برطانوی حکومت قائم ہوچکی تھی۔

ہماری نصابی کتب میں جو پاکستان کی تحریک پڑھائی جاتی ہے، اس میں انگریزوں کے قبضے کی کوئی داستان تک نہیں ملتی، بلکہ مابعد نوآبادیات (post-colonialism) کے تسلسل کو آج بھی ہماری نصابی کتب میں اسی طرح سے جگہ دی گئی ہے جیسے تقسیم ہند سے پہلے تھی۔

درسی کتب مرتب کرنے والے ماہرین تعلیم نے تو اس حد تک احتیاط برتی ہے کہ ہمیں ان کتابوں میں نوآبادیات کا لفظ تک نہیں ملتا، کیونکہ کتابوں میں جو بیانیہ ہمیں ذہن نشین کرایا جاتا ہے وہ صرف ہندو بنیے کے گرد گھومتا ہے جس کا مقصد ہندو دشمنی کو فروغ دینا ہے، جبکہ نصاب میں انگریزوں کے بارے میں نقطہء نظر قدرے مثبت انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔

پڑھیے: پاکستانی تدریسی کتب میں شامل بڑے جھوٹ

برطانوی آبادکاروں نے نوآبادیاتی حکمت عملی کو آگے بڑھایا اور اسی حکمت عملی کی وجہ سے پنجاب کی دھرتی کو بھی 97 برس تک انگریزوں کی غلامی کرنا پڑی۔ غلامی کے اس عرصے کے دوران انگریزوں نے پنجاب کے باسیوں کا مزاج اور ان کا ذہن نوآبادیاتی مقاصد کے تحت تشکیل دینے کے منصوبوں کا آغاز کیا، بالکل اسی طرح جیسے اٹھارہویں صدی کے اوائل میں کلکتہ، بمبئی، مدراس، علی گڑھ اور ہندوستان کی آزاد ریاستوں میں کیا گیا۔

لاہور مغل دور حکومت میں مرکز رہا تھا، اور اس شہر کی اہمیت کو انگریزی حکومت نے بھی بھانپ لیا تھا۔ ذہن سازی کرنے کا بہترین طریقہ نظام تعلیم کو اپنے کنٹرول میں لینا تھا چنانچہ لاہور میں اس کے لیے بیک وقت دو بڑے ادارے قائم کیے گئے۔ 1864ء میں گورنمنٹ کالج لاہور اور ایف سی کالج ان منصوبوں کی بنیاد بنے، اسی کے ساتھ لارڈ میکالے کی تعلیمی یادداشت کی روشنی میں یہاں سے کلرکوں اور سول انتظامیہ کے لیے جو افرادی قوت درکار تھی، ان دونوں اداروں نے اس کی ضرورت کو پورا کیا۔

صرف یہی نہیں، بلکہ پنجاب میں انتظامی نظام کو منظم بنانے کے لیے 1869ء میں سول سیکرٹریٹ بھی قائم کیا گیا۔ ان دو اداروں کے ذریعے سے ابتدائی طور پر انگریزی زبان کی ترویج کی کوشش کی گئی، جس کے لیے گورنمنٹ کالج میں باقاعدہ طور پر شعبہ انگریزی قائم کیا گیا اور اس کالج کا کلکتہ یونیورسٹی کے ساتھ الحاق کیا گیا، جہاں پہلے ہی امتحانات لینے کا نظام انگریزی زبان میں رائج تھا۔

انگریزوں نے پنجاب میں اپنی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے جو جدید طریقہ تعلیم متعارف کروایا، اس میں انگریزی زبان کو بطور استعماری زبان نافذ کیا گیا جس کے ذریعے انگریزوں کو مقامی افراد کی مدد سے انتظامی معاملات کو چلانے میں آسانی پیش آئی۔ یہاں پر بھی انگریز نے بہترین حکمت عملی بنائی، سول سروسز کا امتحان انگریزی زبان میں پاس کرنے کی شرط عائد کی، اور یہ امتحان پاس کرنے والے مقامی افراد کو انتظامی عہدے دیے جاتے جنہیں سول سیکرٹریٹ میں تعینات کیا جاتا۔

مزید پڑھیے: زبانوں کے خلاف جنگ

انگریزوں نے تعلیمی نظام کے ذریعے سے اپنے سیاسی نظام کو بھی طاقت فراہم کی، چنانچہ اس کے لیے پنجاب میں جو جاگیردار طبقہ پیدا کیا گیا تھا، ان کے بچوں کو تعلیم دینے کا بھی بندوبست کیا گیا تاکہ مستقبل میں انگریزوں کو اپنے قبضے کو مزید وسعت دینے کے لیے افرادی قوت میسر ہو۔

اس کے لیے برطانوی حکومت نے لاہور میں ایچی سن کالج بنایا، جبکہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کوئین میری کالج بنایا گیا۔ انگریزی زبان کو بطور استعماری زبان نافذ کرنے میں پنجاب کی مقامی سول بیوروکریسی نے انگریزوں کی معاونت کی۔ چنانچہ انگریزوں نے پنجاب میں تعلیمی اداروں کا جال بچھانا شروع کیا، جس کے لیے راولپنڈی، ملتان، اور بہاولپور کا بھی انتخاب کیا گیا۔

پاکستان کی نصابی کتب میں جو بیانیہ ہمیں پڑھایا جاتا ہے، اس میں یہی درج ہے کہ انگریزوں نے ہی ہمیں تہذیب سکھائی اور انگریزوں کے بنائے ہوئے تعلیمی اداروں کی وساطت سے ہی ہم مہذب بنے۔ اس میں یہی تاثر ملتا ہے کہ انگریز کی آمد سے پہلے ہمارے آباؤاجداد جاہل تھے اور تعلیم دشمن تھے، جبکہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔

پنجاب کے سب سے بڑے شاندار ادارے گورنمنٹ کالج لاہور میں ابتدائی 30سالوں تک صرف آرٹس کے مضامین پڑھائے جاتے تھے جن میں انگریزی اور تاریخ کے مضمون کو نمایاں حیثیت حاصل تھی، بالکل اسی طرح دیگر کالجوں میں بھی محض آرٹس اور ادب پڑھایا جاتا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: اردو میڈیم، انگلش میڈیم

گورنمنٹ کالج لاہور کے پہلے پرنسپل ڈاکٹر جی ڈبلیو لائٹنر، جو مستشرق (orientalist) تھے، نے پورے پنجاب میں تعلیمی سروے کروایا اور پھر اس سروے کو ہندوستان میں 1882ء میں ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کی سربراہی میں بننے والی ایجوکیشن کمیشن کے سامنے بھی پیش کیا گیا۔ ڈاکٹر جی ڈبلیو لائٹنر نے یہ واضح طور پر کہا کہ پنجاب کے مقامی نظام تعلیم کو جان بوجھ کر تباہ کیا گیا ہے، اور بقول لائٹنر، لارڈ میکالے، جو عربی، فارسی، سنسکرت زبان کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا، نے کس طرح سے ان زبانوں میں موجود ادب کو فرسودہ قرار دیا۔

پنجاب میں نوآبادیاتی ذہن کی تشکیل میں پھر انگریزوں کے بنائے ہوئے اعلیٰ تعلیمی اداروں نے کلیدی کردار ادا کیا، اور رہی سہی کسر برطانوی سرکار کی چاپلوسی کرنے والی بیوروکریسی نے پوری کر دی۔ ان عوامی نوکروں نے انگریزی زبان کو بطور استعماری زبان نافذ کرنے میں برطانوی حکومت کی بھر پور معاونت کی۔ حتیٰ کہ عدالتوں کی زبان جو فارسی تھی، اسے بھی ختم کر کے انگریزی زبان کو نافذ کر دیا گیا تاکہ مقامی آبادی کو عدالتوں میں اپنے اپنے کیسز کی پیروی کروانے میں بھی مشکلات کا سامنا ہو۔

جب یہاں کی سرکاری زبان فارسی کو ختم کر کے اس کی جگہ مستقل طور پر انگریزی زبان کو زبردستی نافذ کر دیا گیا، تو یہ بھلا کیسے ممکن تھا کہ اس زبان کو سیکھنے والوں میں انگریزی تہذیب، ثقافت اور تاریخ سے مرعوبیت پیدا نہ ہو۔

قیامِ پاکستان کے بعد بھی یہ سلسلہ تھما نہیں، بلکہ جدید نوآبادیاتی نظریات اور نیو لبرل ازم کے پیروکاروں کے ذریعے سے آگے پھیلا۔ پنجاب میں مابعد نوآبادیات کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے آج کل موجودہ حکومت کوشاں ہے۔ اس کے لیے اپنے سابق آقا برطانیہ سے ماہر تعلیم مائیکل باربر کو امپورٹ کیا گیا اور پھر اس حکومتی مشیر کے کہنے پر سرکاری اسکولوں کو اردو میڈیم سے بدل کر انگریزی میڈیم کر دیا گیا، جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ سرکاری اسکولوں میں پرائمری تک کی ڈراپ آؤٹ شرح میں اضافہ ہوا۔

پڑھیے: انگلش: صرف ایک سبجیکٹ؟

پاکستان میں آج بھی ایسے لوگ اور علاقے موجود ہیں، جہاں لوگوں کو اردو بھی ٹھیک سے نہیں آتی، ان کو جب انگریزی میں تعلیم دینے کی کوشش کی جائے گی، تو ایسا ہی ہوگا۔

آج یورپ کے ترقی یافتہ ممالک جن میں فرانس، روس، اٹلی، اسپین، جرمنی یا ایشیا کے ترقی یافتہ ممالک جاپان، چین وغیرہ شامل ہیں، ان سب میں ابتدائی تعلیم اپنی اپنی قومی زبانوں میں دی جاتی ہے، اور انگریزی زبان کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ان ملکوں کی ترقی میں تو کبھی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی، تو پھر پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ کا سبب انگریزی سے دوری کو بھی کیوں بتایا جاتا ہے؟

دراصل اس خطے میں نوآبادیاتی دور کے اثرات نے ہمارے ذہنوں کو ابھی تک انگریزی زبان کے سحر سے باہر نہیں نکالا، اسی وجہ سے آج ہمارے ہاں تعلیمی اداروں سے ڈگریاں لے کر نکلنے والے طلباء وطالبات کو نہ تو انگریزی زبان اچھی طرح آتی ہے اور نہ ہی اردو زبان پر عبور ہوتا ہے۔ ہمیں مزید نوآبادیاتی ذہنوں کی تشکیل کو روکنے کے لیے مقامی زبانوں میں تعلیم کو عام کرنا ہوگا، اور اس کا آغاز سرکاری اسکولوں سے کرنا ہوگا تاکہ علاقائی جغرافیہ میں پاکستان بھی ترقی کی راہ پر چل سکے۔

اکمل سومرو

اکمل سومرو سیاسیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں akmalsoomroCNN@

ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

Shakeel Apr 09, 2015 10:47pm
a great research.... lno country in the world has made development in" foreign language. " kawwa chala hans ki chaal , apni bhi bhool gaya. we are neither good at english nor at urdu. 'ratta system is also because of the foreign language that is used as source of teaching in our country
Imran Ahmad Apr 10, 2015 07:19am
منفی سوچ والا مضمون ہے۔ اس میں ریسرچ تو ہے نہیں ۔ وہی احساس کمتری والا بیانیہ ہے۔ اب اگر ہم خود ہی کچھ نہیں کرنا چاہتے تو جن لوگوں نے سکول کالج بنائے ان کو الزام دینا درست ہے؟ انگریزوں کے قائم کردہ اداروں کو مظبوط کرتے ہوئے انڈیا تو دنیا کی افرادی قوت کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے جبکہ ہم مدرسوں کی پیداوار سے جہاد میں کافی نام کما چکے ہیں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کیا فارسی اس خطہ کی زبان ہے جس سے آ پکو اتنی محبت ہے اور مغلوں اور باقی بادشاہوں نے کتنے ماڈرن اعلی تعلیمی اداراے قائم کیے جو انگریزوں نے ڈھا دیے؟ کیا اردو سائنس بورڈ کو انگریز ایک سازش کے ذریعہ کام سے روک رہے ہیں کہ خبر دار اردو میں درسی کتب ترجمہ نہ کرنا۔ لازم یہ یہود و ہنود کی سازش کا حصہ ہے کہ مسلمانان پاکستان پیچھے رہیں۔
Shahzad Raza Apr 10, 2015 10:57am
Exactly sir..! you have pointed out the real things which have happened to our subcontinent still people claim that British developed sub continent they built Bridges, Train track they don't know that all that was done for their convenience to take production of this area to England.

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024