سیاسی جمود: پاکستان، امریکا ’اتفاق نہ کرنے پر متفق‘
واشنگٹن: گزشتہ ہفتے پاکستان اور امریکا کے درمیان چار دنوں تک جاری رہنے والی بھرپور بات چیت کے نتیجے کو بہترین انداز میں بیان کرنے کیلئے ایک ہی جملہ کافی ہو گا۔ ’ہم اتفاق نہ کرنے پر اتفاق کرتے ہیں‘۔
دونوں اتحادی ملکوں کے درمیان گئے دنوں کے مضبوط تعلقات کو بحال کرنے کی خواہش لیے وزیر اعظم نواز شریف مذاکرات کیلئے گزشتہ منگل کو واشنگٹن پہنچے۔
تاہم، جمعہ کو جب وہ واپس روانہ ہوئے تو دونوں ملکوں کے درمیان تفریق پیدا کرنے والے تمام مسائل مثلاً افغانستان، انڈیا اور جنوبی ایشیا میں ایٹمی خطرے پر اختلافات جوں کے توں موجود تھے۔
تاہم، کچھ مبصرین کے خیال میں چونکہ ان تمام مسائل کا تعلق سیکیورٹی سے ہے، لہذا توقع ہے کہ امریکی اگلے مہینے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے نتیجہ خیز مذاکرات کریں گے۔
واشنگٹن میں عمومی تاثر یہ ہے کہ پاکستان کی سول حکومت کا سیکیورٹی امور پر کنٹرول نہیں۔
نواز شریف کی روانگی کے بعد امریکی حکام کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی توجہ ایک مرتبہ پھر افغانستان میں سرگرم ہونے والے حقانی نیٹ ورک پر ہے۔
امریکی حکام کہتے ہیں کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کوروکنے کیلئے بہت کچھ کر سکتا ہے لیکن وہ ایسا نہیں کر رہا۔
تاہم، دوسری جانب نواز شریف اور ان کے معاون مصر ہیں ہیں کہ وہ اس حوالے سے اپنی بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور یہ کہ عسکریت پسند افغانستان میں حملوں کیلئے پاکستانی سر زمین استعمال نہیں کر رہے۔
امریکی تسلیم کرتے ہیں کہ ملا عمر کے انتقال کے بعد پاکستان کا طالبان پر اثر کمزور پڑا ہے، لیکن ساتھ ہی واشنگٹن کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اب بھی مزید کارروائی کر سکتا ہے۔
وزیر اعظم کے دورے سے پہلے اور بعد میں پاکستانیوں نے واضح کر دیا تھا کہ ان کی زیادہ تشویش انڈیا کے ساتھ سرحد پر پیدا شدہ صورتحال ہے۔
نواز شریف نے امریکیوں کو یہ بھی یاد دلایا کہ باہمی بات چیت کی ناکامی کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشمیر سمیت تمام اختلافات ختم کرنے کیلئے تیسرے فریق کی گنجائش موجود ہے۔
اس پر امریکیوں نے پاکستانیوں کو فوراً یاد دلایا کہ مسئلہ کشمیر پر ان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور واشنگٹن اس مسئلہ کو باہمی مذاکرات سے ہی حل کرنے پر یقین رکھتا ہے۔
امریکیوں کا کہنا ہے کہ وہ باہمی مذاکرات میں صرف اس صورت مدد کریں گے اگر انڈیا بھی اس کا خواہش مند ہو۔
وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی پریس سیکریٹری ایرک شولٹز نے کہا ’یہ واضح ہے کہ پاکستان کے مستقبل کیلئے اس کے انڈیا سے تعلقات کی نوعیت انتہائی اہم ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان نارمل تعلقات خود ان کیلئے اور خطے کے استحکام کیلئے اہم ہیں‘۔
اوباما-نواز ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں دوسرے گروپوں کے ساتھ ساتھ لشکر طیبہ کے خلاف موثر کارروائی کا ذکر موجود تھا۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق، امریکیوں نے پاکستان سے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو محدود کرے کیونکہ اس کے پاس پہلے ہی بہت سے ہتھیار موجود ہیں۔
اس پر پاکستان نے امریکیوں سے کہا کہ وہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان موجود غیر روایتی اسلحہ کے عدم توازن پر اپنی توجہ دے۔
وزیر اعظم نے یہ بات جمعہ کو امریکی تھنک ٹینک سے خطاب میں کہی۔ انہوں نے خطاب کے دوران خبردار کیا کہ اس عدم توازن کی وجہ سے ہی پاکستان اپنے اٹیمی اسلحہ کی صلاحیت بہتر بنانے پر توجہ دے رہا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے وزیر اعظم کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا انڈیا اور پاکستان کو چاہیے کہ وہ سیکیورٹی سے متعلق باہمی تحفظات پر خود بات چیت کریں۔
تبصرے (1) بند ہیں