’خطے سے باہر مزید کوئی فوجی مشن نہیں‘
واشنگٹن: پاکستان نے واضح کیا ہے کہ پاک فوج کو خطے سے باہر مزید کسی فوجی مشن پر نہیں بھیجا جائے گا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل عاصم سلیم باوجوہ نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکہ کے اختتام پر پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ پہلے ہی پاکستان کے ایک لاکھ 82 ہزار فوجی جوان پاک افغان بارڈر پر تعینات ہیں، ایسی صورت میں پاکستان مزید کسی مشن میں شرکت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
واضح رہے کہ رواں سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں یہ تجویز سامنے آئی تھی کہ شام وعراق میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش سے لڑنے کے لیے غیر ملکی افواج کی مدد لی جائے، جس میں پاک فوج کی شمولیت کی تجویز بھی شامل تھی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں قدم جمانے والی شدت پسند تنظیم داعش اب عالمی خطرہ بن چکی ہے، جس سے تمام ممالک کو مل کر نمٹنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ خوش قسمتی سے داعش کی حمایت کرنے والوں اور ہمدردوں نے پاکستان میں اُس وقت قدم رکھنے کی کوشش کی جب عوام شدت پسندی سے تنگ آچکے تھے اس لیے انہوں نے ہر قسم کی شدت پسندی کو مسترد کردیا۔
امریکہ کی جانب سے جوہری معاہدے کا معاملہ اٹھانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کا کہنا تھا کہ جوہری معاہدے کے معاملے پر پاکستان نے بالکل واضح کردیا ہے کہ اس کا یہ پروگرام بیرونی خطرات کے دفاع کے لیے ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آرمی چیف کے دورہ امریکہ کے دوران، پاکستان کے اندرونی معاملات میں ہندوستانی مداخلت کے حوالے سے وزیر اعظم کے دورے کے دوران جمع کرائے ڈوزیئر کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ایسے معاملات کو اس طرح کے دوروں اور ملاقاتوں کے بجائے مناسب موقع پر سفارتی سطح پر اٹھایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنرل راحیل شریف اور امریکی قیادت کے درمیان ملاقاتوں میں دوطرفہ دفاعی تعلقات، خطے کی سلامتی اور افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔
خیال رہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اپنا 5 روزہ دورہ امریکہ مکمل کرنے کے بعد برازیل روانہ ہوگئے تھے۔
اس دورے میں آرمی چیف نے امریکی نائب صدر جو بائیڈن، سیکریٹری خارجہ جان کیری اور سیکریٹری دفاع ایشٹن کارٹر سمیت اعلیٰ امریکی قیادت سے ملاقاتیں کیں۔
لیفٹیننٹ جنرل عاصم باوجوہ نے کہا کہ آرمی چیف کے دورے کے دوران امریکی قیادت کے سامنے کشمیر کا معاملہ بھی اٹھایا گیا، جس کا خطے میں امن اور سلامتی کے لیے حل نکالنا بہت ضروری ہے۔
افغان مفاہمتی عمل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ دونوں کا اس پر اتفاق ہے کہ مفاہمتی عمل میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے اور اسے بغیر کسی رکاوٹ کے آگے بڑھنا چاہیے۔
تبصرے (1) بند ہیں