وزارت دفاع کے اکاؤنٹس : ’بحث ان کیمرہ ہوگی‘
اسلام آباد: ایسا نظر آرہا ہے کہ وزارت دفاع کے مالی معاملات کی کھلی جانچ پڑتال کے لیے قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) مجبوریوں کا شکار ہوگی ہے، جیسا کہ اس کی ذیلی کمیٹی نے وزارت کے آکاؤنٹ کے آڈٹ معاملات کے لیے ان کیمرہ بحث کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
ن لیگ کے رکن قومی اسمبلی رانا افضال حسین کی زیر صدارت ہونے والے ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں وزارت دفاع کی درخواست پر مزکورہ فیصلہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وزارت کے حکام نے ہم سے درخواست کی ہے کہ کارروائی ان کیمرہ کی جائے‘۔ ’اس لیے ہمارے پاس کوئی اور راستہ موجود نہیں ہے‘۔
رانا افضال حسین نے کہا کہ کمیٹی مزکورہ بات چیت کو خفیہ نہیں رکھنا چاہتی لیکن اس "معاملے کی حساس نوعیت" کے باعث ایسا کرنا پڑے گا۔
پی اے سی اراکین کا کہنا تھا کہ کمیٹی وزارت کی درخواست کو مسترد نہیں کرسکتی کیونکہ یہ ’قومی مفاد کے نام پر‘ کی گئی۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’آپ جانتے ہیں کہ وہ قومی مفاد کے نام پر کسی بھی قانون ساز سے کمیٹی سے علیحدگی کا کہہ سکتے ہیں‘۔
ذیلی کمیٹی ان تمام آڈٹ رپورٹ کے ان مندرجات کی، جو کہ ملڑی اسٹیٹ آفس، کنٹونمٹ بورڈ اور ملٹری لینڈ کے حوالے سے تھے، اسکروٹنی مکمل کرچکی ہے۔
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ سال 97-1996 کی اس آڈٹ رپورٹ کے مزکورہ پیراگرافس پر گزشتہ کئی سالوں سے کئی بار کھل کر تبادلہ خیال کیا جا چکا ہے۔
واضح رہے کہ رواں سال فروری میں وزارت دفاع نے کمیٹی کی کارروائی کی خبریں منظر عام پر آنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا، جس میں آڈیٹر نے الزام لگایا تھا کہ دو دہائیہ گزر جانے کے باوجود وزارت اپنے 81 فوجی اور سویلین افسران کی جانب سے غبن کئے گئے 1 ارب 53 کروڑ روپے کی وصولی میں ناکام ہوچکی ہے۔
ریکارڈ غائب ہونے کے وجہ سے پیش آنے والی مشکلات
دوسری جانب 2002 میں شہید ملت سیکریٹریٹ میں پیش آنے والے آتشزدگی کے واقعے میں ریٹائرڈ سرکاری افسران کو الاٹ کیے جانے والے مکانات کا ریکارڈ غائب ہوجانے کے باعث کمیٹی کو مشکلات کا سامنا ہے۔
آڈٹ حکام نے کیمٹی کو بتایا کہ حکومتی اسپانسر رہائشیوں کی جانب سے 110 الاٹیز سے 39 لاکھ روپے وصول کرنے میں ناکام رہی ہے کیونکہ اسٹیٹ آفس کا تمام الاٹمنٹ ریکارڈ آتشزدگی کی نظر ہو چکا ہے۔
ہاؤسنگ کی وزارت نے ان الاٹیز کے ریٹائر یا موت کے باعث ناقابل رسائی ہونی کی وجہ سے مزکورہ وصولیوں کو ختم کرنے کی درخواست کی تھی، لیکن کمیٹی نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے وزارت کو ہدایت کی کہ وہ الاٹیز کو تلاش کرے اور رقم کی وصولی کرے، چاہے ریٹائر افسران سے ہی کی جائے۔
ادھر پی اے سی کے رکن میاں عبدالمنان نے کمیٹی کے سیکریٹری ہو ہدایات کیں کہ وہ ہاوسنگ کے ریٹائر سیکریٹری کو طلب کریں تاکہ ان سے یہ پوچھا جائے کہ انھوں نے سینیٹرز، قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین کی جانب سے سرکاری ریسٹ ہاوس کے استعمال کے دوران کرائے کی مد میں ادا نہ کی جانے والی 48 لاکھ کی رقم کے معاملے کو قومی احتساب بیورو کے کیوں نہیں بھجوایا۔
ڈائریکٹر جنرل آڈٹ مقبول گوندل نے کمیٹی کو بتایا کہ قانون سازوں سے وصولی کے حوالے سے وزارت ناکام رہی ہے۔
یاد رہے کہ 2001 میں ہونے والے ایک اجلاس میں پی اے سی نے ہاوسنگ کے سیکریٹری کو بقایاجات کی وصولی کے لیے ’ہر ممکن اقدامات اٹھائے جانے‘ اور وصولی نہ ہونے کی صورت میں اسے مسئلے کو نیب کے سپرد کرنے کی ہدایت کی تھی۔
ہاؤسنگ کے موجودہ سیکریڑی نے بتایا کہ اس حوالے سے معمولی سے رقم وصول کی گئی ہے اور بقایا جات کی وصولی کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
یہ خبر 30 دسمبر 2015 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.
تبصرے (3) بند ہیں