• KHI: Maghrib 7:04pm Isha 8:27pm
  • LHR: Maghrib 6:46pm Isha 8:16pm
  • ISB: Maghrib 6:55pm Isha 8:28pm
  • KHI: Maghrib 7:04pm Isha 8:27pm
  • LHR: Maghrib 6:46pm Isha 8:16pm
  • ISB: Maghrib 6:55pm Isha 8:28pm

پاکستان،جنوبی ایشیامیں کشیدگی میں کمی کیلئے پرعزم

شائع March 3, 2016

واشنگٹن:پاکستان نے جنوبی ایشیا میں مسلح تصادم کے خطرے کو کم کرنے کے عمل میں شامل رہنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

پاک-امریکا اسٹریٹیجک مذاکرات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان کے مطابق واشنگٹن نے مسئلہ کشمیر کو تنازع تسلیم کرتے ہوئے اس کے فوری اور پُر امن حل کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ 'پاکستان نے اعتماد سازی کے لیے اقدامات اٹھانے اور مسلح تصادم کے خطرے کو کم کرنے کے عمل میں شامل رہنے کا اعادہ کیا ہے'۔

مزید کہا گیا، 'امریکا اور پاکستان نے کشمیر سمیت تمام اہم مسائل کا پُرامن حل تلاش کرنے کے لیے معنی خیز مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔'

'اسٹریٹیجک استحکام کو فروغ دینے' کے باب میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے جوہری ہتھیاروں (ڈبلیو ایم ڈیز) کے پھیلاؤ اور ان کی غیر ریاستی اور ریاستی عناصر کو فراہمی کی روک تھام کی تفصیلات شامل کی گئی ہیں۔

مذکورہ باب پاکستان کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1540 کے ساتھ منسلک رکھنے کے حوالے سے ہے، جس کے مطابق تمام رکن ممالک کو جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے خلاف مناسب اور موثر اقدامات کو نافذ کرنے چاہیئیں۔

مشترکہ جاری ہونے والے بیان میں امریکا نے اپنے اسٹریٹیجک ٹریڈ کنٹرولز کو ہم آہنگی دینے کے لیے کی جانے والی پاکستانی کوششوں کا اعتراف کیا۔

امریکا نے پاکستان کی بین الاقوامی برادری کے ساتھ شمولیت کو سراہا، جس میں اپنے جوہری سیکیورٹی سینٹر ایکسیلینس (آئی اے ای اے) میں ٹریننگ سرگرمیوں کا انعقاد اور جوہری سیکیورٹی سمٹ میں شرکت شامل ہے۔

امریکا نے پاکستان کی جانب سے جوہری مواد کے طبعی تحفظ سے متعلق کنونشن میں 2005 کی ترمیم کی توثیق کو بھی سراہا۔

بیان کے مطابق 'دونوں اطراف نے جنوبی ایشیا میں اسٹریٹیجک استحکام کے حوالے سے مشترکہ مفادات کے تحفظ اور شفافیت میں اضافے کو تسلیم کیا'۔

علاقائی تعاون

'علاقائی تعاون' کے باب میں واشنگٹن نے افغان قیادت اور افغان امن عمل میں سہولت کے لیے اسلام آباد کے عزم کا خیر مقدم کیا۔

"دونوں فریقین نے زور دیا کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست امن مذاکرات کا جلد آغاز کیا جائے تاکہ فوری طور پر خونریزی کا خاتمہ ہو اور افغان اتحاد، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا تحفظ ممکن ہوسکے"۔

امریکا کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کی قیادت کرنے والے سیکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے چار رکنی تعاون گروپ کی میزبانی کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے طالبان سے افغان جنگ کے خاتمے اور قیام امن کے مطالبے کو خوش آئند قرار دیا۔

دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ گروپ کے تمام رکن ممالک خطے میں امن اور استحکام لانے کے لے افغان قیادت میں مصالحتی عمل کی حمایت کے لیے وسیع علاقائی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششوں کو تیز کریں گے۔

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تمام تصفیہ طلب مسائل کے پرامن حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، وفد نے دونوں فریقین کو 'مستقل تحمل سے کام لینے اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے مل کر کام' کرنے پر بھی زور دیا۔

امریکا کے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی کہ پاکستان نے کالعدم جیش محمد کے رہنما مولانا مسعود اظہر کو حراست میں لے لیا ہے اور 2 جنوری کو پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملے میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے پاکستانی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔

'انسداد دہشت گردی' کے باب میں پُر تشدد انتہا پسندوں کے خلاف مؤثر کارروائی کی ضرورت پر زور دیا گیا، 'خاص طور پر اس بات پر کہ کوئی بھی ملک اپنی سرزمین دوسرے ملک میں دہشت گردی اور اسے غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا'۔

پاک-امریکا اسٹریٹیجک مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت کرنے والے وزیراعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیز نے یقین دہانی کروائی کہ پاکستان اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیموں کے خلاف مؤثر کارروائی کررہا ہے، جن میں القاعدہ، حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ اور ان سے منسلک دیگر تنظیمیں شامل ہیں۔

امریکا اور پاکستان نے 'دہشت گردی اور شدت پسندی کے درپیش خطرات سے نمٹنے' کا عہد کیا۔

دونوں فریقین نے دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات کے استعمال کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے پاکستان کی صلاحیتوں کو مزید مؤثر اور مضبوط بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔

'دفاع اور سیکورٹی تعاون' کے باب میں پاک-امریکا دوطرفہ سیکیورٹی تعلقات کو مشترکہ مفادات اور مزید مفید بنانے کی ضرورت پر تفصیلات شامل کی گئی ہیں۔

'امریکا نے فاٹا اور دیگر علاقوں میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے پاکستانی فوج کی جانب سے جاری انسداد عسکریت پسندی آپریشنز کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا'۔

دونوں ممالک نے دوطرفہ دفاعی تعاون کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 'باہمی مفاد اور دفاعی تعاون کو بہتر بنانے کے لیے نئی راہیں دریافت کی جائیں گی'۔

سرتاج عزیز نے فاٹا میں جاری آپریشن کے تناظر میں بے گھر ہونے والے افراد کی واپسی کے کام میں درپیش چیلنجز کا ذکر کیا۔

بعدازاں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے جوہری پروگرام پر یکطرفہ روک ٹوک برداشت نہیں کرے گا۔

انھوں نے 'ہندوستان کے ساتھ روایتی عدم توازن کا' حوالہ دیا، جو پاکستان کے کم سے کم جوہری صلاحیت کے حصول کی اہم وجہ ہے، تاہم ساتھ ہی مشیر خارجہ نے خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لیے ہندوستان کے ساتھ کام کرنے پر بھی زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ رواں ماہ کے اختتام پر واشنگٹن میں ہونے والی جوہری سربراہی اجلاس کے موقع پر پاکستان اور ہندوستان کے وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات ہوجائے۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ 'کوئی یکطرفہ کارروائی نہیں ہوگی، اگر ہندوستان کی صلاحیت میں تبدیلی آئے گی تو ہمیں بھی تبدیلی لانا ہوگی اور یہی ہمارے کم سے کم مؤثر جوہری صلاحیت کوبرقرار رکھنے کی وجہ ہے'۔

انھوں نے ہندوستان کے اس دعوے کو مسترد کردیا، جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی ایجنیسز 2 جنوری کو ہندوستان کے پٹھان کوٹ ایئربیس پر ہونے والے حملے میں ملوث ہیں، انھوں نے اسے 'عالمی سطح کی غلط بیانی' قرار دیا۔

سرتاج عزیز نے ہندوستان کے الزامات کے جواب میں دعویٰ کیا کہ 'ہندوستان کے ریاستی عناصر پاکستان کے قبائلی علاقے فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں مسائل پیدا کرنے میں ملوث ہیں'۔

اس سے قبل تھنک ٹینک ڈیفنس رائٹرز کے تحت ہونے والے دو اجلاسوں میں انھوں نے جان کیری کے مطالبے سے اختلاف کیا تھا، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو محدود یا پابند کیا جائے۔

انھوں نے اس تجویز کو بھی مسترد کیا تھا کہ پاکستان کے محدود پیمانے پر نقصان پہنچانے والے جوہری ہتھیاروں پر غیر ریاستی عناصر قابض ہوسکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ 'جوہری ہتھیاروں کی حفاظت اور ان کی سیکیورٹی کے لیے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں ہم نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے'۔

یہ خبر 03 مارچ 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی.


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

کارٹون

کارٹون : 6 مئی 2025
کارٹون : 4 مئی 2025