'چیک پوسٹ افغانستان کےحوالے کرنا قابلِ سزا جرم'
اسلام آباد: انگور اڈہ چیک پوسٹ کو افغان حکومت کے حوالے کرنے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کردی گئی۔
پٹیشن میں درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) 1952 کے سیکشن 24 کے تحت کسی بھی گیریژن، ایئرپورٹ، قلعے، جگہ، پوسٹ یا گارڈ کو کسی اور کو فراہم کرنا قابل سزا جرم ہے۔
اپنی پٹیشن میں سابق اسسٹنٹ جج ایڈووکیٹ جنرل (ر) لیفٹیننٹ کرنل انعام الرحمٰن نے انگور اڈہ چیک پوسٹ کا انتظام منتقل کرنے والے سینئر افسران کے خلاف کارروائی کی درخواست کی۔
واضح رہے کہ درخواست گزار (ر) لیفٹیننٹ کرنل انعام الرحمٰن پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں ایک دہائی سے زائد عرصے تک سینئر انسٹرکٹر کے فرائض انجام دے چکے ہیں اور 16 سال تک پاک فوج کی ایڈووکیٹ جنرل برانچ میں بحیثیت جج تعینات رہے۔
مزید پڑھیں: سرحدعبورکرنے کا انتظام 'افغان حکام کے حوالے'
انھوں نے میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مذکورہ چیک پوسٹ کا انتظام اس وجہ سے منتقل کیا گیا کیونکہ اس سے (پاکستان کے) افغان حکومت کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے گی۔'، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ فوجی ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے بھی چیک پوسٹ کی حوالگی کے حوالے سے ٹوئیٹ کی تھی۔
درخواست گزار کے مطابق 23 مئی کو وزیر داخلہ نے بھی انگور اڈہ چیک پوسٹ کو افغان حکام کے حوالے کرنے پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اپنے تحفظات ظاہر کیے تھے۔
پٹیشن کے چھٹے پیراگراف کے مطابق، 'انگور اڈہ چیک پوسٹ کئی کلومیٹر پر محیط ہے جہاں ہزاروں پاکستانی رہائش پذیر ہیں اور اس منتقلی کے نتیجے میں ان پاکستانیوں نے اپنی شہریت کھو دی ہے اور اب وہ بے گھر ہوگئے ہیں۔'
مزید کہا گیا کہ 'انگور اڈہ چیک پوسٹ کو افغان حکومت کے حوالے کرنے کے فوجی حکام کے فیصلے سے پوری قوم خصوصاً سابق فوجیوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سابق فوجیوں کے قانونی فورم کی جانب سے ایک ہنگامی اجلاس بلوایا گیا اور متفقہ طور پر فوجی حکام کی جانب سے مذکورہ چیک پوسٹ کو افغان حکومت کے حوالے کرنے پر شدید خدشات کا اظہار کیا گیا۔'
یہ بھی پڑھیں:'چیک پوسٹ افغانستان کو دینا غیرآئینی اور غیرقانونی'
پٹیشن میں کہا گیا کہ صرف پارلیمنٹ ہی دیگر ممالک کے ساتھ دو طرفہ معاملات پر فیصلہ کرسکتی ہے اور یہ کہ چیف آف آرمی اسٹاف کا کام پاکستان کا دفاع کرنا ہے۔
شہری معاملات میں فوجی مداخلت کا حوالہ دیتے ہوئے پٹیشن میں مزید کہا گیا کہ 'فوج نے معاشرے کے سماجی و سیاسی ڈھانچے کو تباہ کردیا ہے'۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کی جانب سے سے سندھ طاس معاہدے پر دستخط پر بھی تنقید کرتے ہوئے درخواست گزار کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کی وفاقی کابینہ اور پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ محترمہ فاطمہ جناح کی جانب سے بھی مذمت کی گئی تھی۔
درخواست گزار نے مزید کہا کہ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ میں سقوط ڈھاکا میں فوجی قیادت کی غفلت کی جانب نشاندہی کی گئی تھی، فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے امریکا اور سوویت جنگ میں فوج کا استعمال کیا اور سیاچن کے ہاتھ سے جانے کے بھی وہی ذمہ دار تھے، جبکہ ان کے جانشین جنرل مرزا اسلم بیگ نے انٹرسروسز انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کو سیاستدانوں کو 'رشوت' دینے کے لیے استعمال کیا۔ جنرل جہانگیر کرامت نے نیشنل سیکیورٹی کونسل (این ایس سی) کی اسٹیبلشمنٹ کی تائید کی اور جنرل پرویز مشرف نیٹو افغان جنگ کو ملک میں لے آئے اور امریکا کو پاکستان کے ہوئی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دی۔
مزید پڑھیں:افغانستان نے انگور اڈا سرحدی گزرگاہ بند کردی
درخواست گزار نے دعویٰ کیا کہ موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے فوج کا امیج بہتر بنایا ہے لیکن انگوراڈہ چیک پوسٹ کو افغان حکومت کے حوالے کرنے پر رضامندی غیر قانونی ہے۔
درخواست گزار نے وزیراعظم، سیکریٹری دفاع اورسینئر فوجی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ سے درخواست کی کہ وہ وزیراعظم کو انگوراڈہ چیک پوسٹ کو افغان حکومت کے حوالے کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے متعلقہ عہدیدار سے متعدد بارکوششوں کے باوجود بھی اس حوالے سے رابطہ ممکن نہ ہوسکا۔
تاہم انگور اڈہ چیک پوسٹ کی حوالگی کے بعد جاری کیے گئے بیان میں آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان برادرانہ تعلقات کو مزیدمظبوط بنانے کے لیے اور سرحدی انتظام کو بہتر بنانے کے لیے انگور اڈہ کی چیک پوسٹ کو افغان حکام کے حوالے کیا جارہا ہے۔
پاک فوج کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ 'مذکورہ اقدام کا مقصد پاک افغان سرحد پر مستقل طور پر امن و استحکام کو فروغ دینا ہے'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سرحدی امور سے متعلق تمام مسائل باہمی مشاورت سے حل کیے جائیں گے۔
یہ خبر7 جون 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔