وزیر اعظم کے اختیارات میں کمی کے خلاف حکومتی درخواست مسترد
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کے اختیارات میں کمی سے متعلق اپنے 18 اگست کے فیصلے پر نظر ثانی کی حکومتی درخواست مسترد کردی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں وزیر اعظم کو کابینہ سے مشاورت کے بغیر کسی بھی قانونی مسودے، مالیاتی بل کو پیش کرنے ، بجٹ اور صوابدیدی اخراجات کی منظوری سے روک دیا تھا۔
جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پٹیشن کو خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اس معاملے میں عدالت کی مداخلت کے لیے کوئی ٹھوس وجہ بیان نہیں کی گئی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل محمد وقار رانا نے موقف اختیار کیا کہ عدالتی فیصلے کے تحت وزیر اعظم کو آزادانہ اخراجاتی اختیارات سے روکا جانا ریکارڈ میں غلطی کا موجب بنا کیوں کہ آئین کا آرٹیکل 83 بجٹ کی تخصیص کے لیے وزیر اعظم کی جانب سے توثیق کی اجازت دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے فیصلے سے وزیر اعظم 'خوش'
انہوں نے مزید کہا کہ آئین میں اس سلسلے میں پارلیمنٹ کی کارروائی کی لازمی قرار نہیں دیا گیا۔
سپریم کوٹ کا کہنا ہے کہ قانون سازی اور اخراجات کی منظوری کے لیے کابینہ سے مشاورت ضروری ہے۔
حکومتی وکیل نے فیصلے میں ایک اور غلطی کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے نے وفاقی حکومت اور کابینہ کے درمیان تفریق کو ختم کیا جس کے دائرہ کار اور اختیارات علیحدہ سے قانون میں درج ہیں۔
وکیل نے کہا کہ آئین بنانے والے ایک طاقتور چیف ایگزیکٹو (وزیر اعظم) چاہتے تھے اور یہ سسٹم 18 ویں ترمیم کے ذریعے واپس لایا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالت نے اجتماعی ذمہ داری کے اصول کا بھی غلط مفہوم سمجھا جس کا مطلب یہ نہیں کہ اجتماعی طور پر کام کرنا نہیں ہے۔
نظر ثانی کی درخواست میں وزارت خزانہ نےفیصلے کے نتیجے میں ’آئینی بحران‘ کے پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا اور موقف اختیار کیا کہ اجتماعی ذمہ داری کے اصول کے دو بنیادی پہلو ہیں، پہلا سیاسی اور دوسرا قانونی۔
مزید پڑھیں: پاناما لیکس کیس : سپریم کورٹ کا ایک رکنی کمیشن کے قیام کا فیصلہ
حکومت کا موقف ہے کہ اجتماعی ذمہ داری کا مطلب اجتماعی طور پر فیصلے کرنا نہیں جبکہ 1973 کا اصلی متن بھی اس دلیل کی تصدیق کرتا ہے کہ وزیر اعظم کو ہر معاملے میں صدابدیدی اختیارات حاصل ہیں۔
درخواست میں کہا گیا کہ بطور چیف ایگزیکٹو وزیر اعظم کو کئی اختیارات حاصل ہیں اور جس میں وفاقی وزراء اور ان ہی کی جانب سے منتخب کی ہوئی کابینہ کا کوئی کردار نہیں، اگر وزیر اعظم موجودہ کابینہ کو تحلیل کرنے اور نئے وزراء پر مشتمل کابینہ تشکیل دینے کا فیصلہ کرلیں تو کابینہ کی غیر موجودگی کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ ملک میں وفاقی حکومت موجود نہیں۔
درخواست کے مطابق ماضی میں بھی کابینہ کی تحلیل اور دوبارہ تشکیل کے درمیانی عرصے میں وفاقی وزراء کے قلمدان اور اختیارات وزیراعظم کے پاس رہے ہیں جس سے آئین کے آرٹیکل(1) 90 کی تشریح ہوتی ہے جس کے تحت وفاقی حکومت کو وزیر اعظم اور وفاقی وزراء پر مشتمل ہونا چاہیے تاہم اس کا کابینہ کی صورت میں ہونا ضروری نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف برطانیہ سے حکومت چلائیں گے؟
حکومتی درخواست کے مطابق ’اس سے ملک میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگی ،عدالت نے یہ فیصلہ جاری کرکے اس طرح کے تمام حکومتی احکامات کو قانون کی نظر میں باطل کردیا حالانکہ وہ قانونی شقیں جو پارلیمنٹ کو افسران اور عہدے داران کو اختیارات تفویض کرنے کی اجازت دیتی ہیں وہ آئین کے آرٹیکل 98 کے تحت وفاقی حکومت کے ماتحت ہیں‘۔
اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وزیراعظم تنہا کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے یا کابینہ کو پس پشت ڈال کر یا نظر انداز کرکے کوئی فصیلہ نہیں لے سکتے کیوں کہ فیصلہ سازی کے اختیارات وفاقی حکومت کے پاس ہیں جو کہ کابینہ ہے، لہٰذا وزیر اعظم کی جانب سے لیا جانے والا یکطرفہ فیصلہ اختیارات سے تجاوز ہوگا۔
عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ آئینی جمہوریت کے متضاد ہے اور شہنشاہی طرز حکمرانی کے مترادف ہوگا جس کی مثال ہمیں ماضی میں ملتی ہے کہ فرانس کا بادشاہ لوئی XIV ہمیشہ کہتا تھا کہ ’میں ہی ریاست ہوں‘۔
یہ خبر 5 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی