• KHI: Fajr 4:30am Sunrise 5:52am
  • LHR: Fajr 3:42am Sunrise 5:12am
  • ISB: Fajr 3:40am Sunrise 5:14am
  • KHI: Fajr 4:30am Sunrise 5:52am
  • LHR: Fajr 3:42am Sunrise 5:12am
  • ISB: Fajr 3:40am Sunrise 5:14am

پاناما لیکس: ’معاملہ سیاسی طور پر حل کیا جانا چاہیئے‘

شائع November 11, 2016

پانامہ لیکس کیس کی سماعت سپریم کورٹ 15 نومبر کو کرے گی، گزشتہ دنوں ہٹائے جانے والے پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے وائس چیئرمین بیرسٹر فروغ نسیم کے مطابق ایپکس کورٹ پاناما پیپرز میں سامنے آنے والے تمام الزامات کی تحقیقات کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔

تاہم یہ آراء بھی موجود ہیں کہ اس نوعیت کے معاملات پر کارروائی سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے سابق صدر اور پاکستان بار کونسل کے نئے منتخب ہونے والے ترجمان کامران مرتضیٰ نے ڈان سے بات کرتے ہوئے تجویز دی کہ پاناما کے معاملے پر عدلیہ کے بجائے پارلیمان کو اعلیٰ سطح کی کمیٹی کے ذریعے تحقیقات کرانی چاہیئے۔

سوال: سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم اور ان کے بچوں کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) و دیگر کی جانب سے دائر کی گئی پٹیشنز کی سماعت کے فیصلے کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟

جواب: میں احتساب پر یقین رکھتا ہوں، اور اس کا آغاز اوپر سے ہونا چاہیئے، تاہم ایپکس کمیٹی کی جانب سے پٹیشنز کی سماعت کی منظوری پر میرے کچھ تحفظات ہیں۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کا دھرنا اور پاناما کیس : وزیر اعظم کے لیے دہرا خطرہ

سپریم کورٹ دو قسم کی پٹیشنز کی سماعت کرتا ہے، جن میں ہائی کورٹ احکامات کے خلاف اپیل اور آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت جمع کرائی گئی پٹیشنز شامل ہیں (بنیادی حقوق کے اطلاق کے حوالے سے عوامی اہمیت کے سوالات پر مبنی) تاہم کچھ مزید پابندیاں آرٹیکل کے تحت عائد ہوتی ہیں، سپریم کورٹ صرف بنیادی حقوق سے جڑے معاملات پر سماعت کرسکتی ہے، میرے خیال میں پاناما لیکس کا معاملہ بنیادی حقوق کا معاملہ نہیں بلکہ ایک سیاسی معاملہ ہے اور اسے سیاسی طور پر حل کیا جانا چاہیئے۔

سوال: پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) اسے معاملے پر سپریم کورٹ کے اختیار کو تسلیم کرتے نظر آتے ہیں، اس صورتحال میں کوئی عدالت عظمیٰ کے سامنے کارروائی پر اعتراض کیسے کرسکتا ہے؟

جواب: ہمیں اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ سپریم کورٹ پٹیشنز پر کس انداز میں کارروائی کررہا ہے، اس وقت ایک جماعت کو دھرنے کا خطرہ تھا جبکہ دوسری جماعت احتجاج ختم کرنے کا باعزت طریقہ ڈھونڈ رہی تھی، کیونکہ انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اپنے کارکنوں کے خلاف سخت رویئے کی توقع نہیں رکھی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس کیس: وزیراعظم کے بچوں نے جواب جمع کرادیئے

نتیجتاً دونوں جماعتوں نے عدالت کی جانب سے معاملے پر ثالثی کے کردار کو تسلیم کیا، اگر دو افراد ایک سول جج کے پاس جا کر کسی جرم کا فیصلہ سنانے کا کہیں تو کیا دونوں جماعتوں کی مرضی شامل ہونے سے سول جج کا دائرہ اختیار تبدیل ہوجائے گا؟ اس کا جواب نہیں ہے، اس معاملے میں سپریم کورٹ کی جانب سے سیاسی پٹیشن کو قبول کرنا آئندہ مقدمہ دائر کرنے والے افراد کے لیے ایک مثال بن جائے گا، عدالت عظمیٰ اس پٹیشن کو منظور کرلینے کے بعد مستقبل کی پٹیشنز کو منع کیسے کرے گی؟

سوال: پچھلے سال، اس وقت کے چیف جسٹس نے 2013 کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن کی سربراہی کی تھی، اسی طرح سپریم کورٹ کا کمیشن پاناما کیس کو کیوں نہیں لے سکتا؟

جواب: میں نے دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیشن کی تشکیل کی بھی مخالفت کی تھی، میرے مطابق الیکشن ٹریبیونل کو آرٹیکل 225 کے تحت اس طرح کے معاملات کی سماعت کرنی چاہیئے اور ایپکس کورٹ ٹریبیونل کے فیصلے کے خلاف اپیلز کی سماعت کرسکتا ہے، وکلا برادری نے سپریم کورٹ کی جانب سے الزامات کی تحقیقات کے فیصلے کا خیرمقدم نہیں کیا تھا، یہاں تک کہ سابق چیف جسٹس ناصر الملک جو ایک شریف آدمی تھے، انہیں بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، میرے خیال سے سیاسی جماعتیں پاناما لیکس کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد بھی سپریم کورٹ کو تنقید کا نشانہ بنائیں گی، اس لیے بہتر ہے کہ عدالت اس معاملے سے جتنا جلد ہوسکے جان چھڑالے۔

مزید پڑھیں: پاناما لیکس: سپریم کورٹ نے فریقین سے ٹی او آرز مانگ لیے

سوال: قومی احتساب بیورو (نیب) ،فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) جیسے ادارے پاناما لیکس کے معاملے پر تحقیقات کے لیے تیار نظر نہیں آتے، تو سپریم کورٹ الزامات کی تحقیقات کیسے کرے گا؟

جواب: تفتیشی اداروں کے رضامند نہ ہونے کے باعث سپریم کورٹ کے لیے الزامات کی تحقیقات کرانا بہت مشکل ہوگا، اس سے معزز ججز کو شرمندہ ہونا پڑے گا اور ادارے کی ساکھ بھی متاثر ہوگی، جب تفتیشی ادارے اور متعلقہ ایجنسیاں ہی تحقیقات کا اختیار نہیں رکھتیں اور تیار نہیں تو موجودہ قوانین کی اجازت نہ ہوتے ہوئے سپریم کورٹ انہیں تفتیش کی ہدایت کیسے دے گا۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس کیس : سپریم کورٹ کا ایک رکنی کمیشن کے قیام کا فیصلہ

سوال: کیا الزامات پرتحقیقات کو چھوڑ دیا جانا چاہیئے یا شفاف تحقیقات کا کوئی اور طریقہ موجود ہے؟

جواب: یہ چونکہ ایک سیاسی معاملہ اس لیے اسے سیاسی طور پر حل کیا جانا چاہیئے، پارلیمان دونوں ہاؤسز، سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اہم ارکان پر مشتمل اعلیٰ سطحی کمیٹی بنا سکتی ہے جس میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی شامل ہو، یہ کمیٹی تفتیشی اداروں پر شفاف تحقیقات کے لیے زور ڈال سکتی ہے، اور اگر یہ کمیٹی ناکام ہوجاتی ہے تو اس کا الزام سیاستدانوں کو قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن اگر سپریم کورٹ فیصلہ کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو اس مقدس ادارے کو بہت غیرضروری تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔


یہ خبر 11 نومبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 6 مئی 2025
کارٹون : 4 مئی 2025