• KHI: Fajr 4:30am Sunrise 5:52am
  • LHR: Fajr 3:42am Sunrise 5:12am
  • ISB: Fajr 3:40am Sunrise 5:14am
  • KHI: Fajr 4:30am Sunrise 5:52am
  • LHR: Fajr 3:42am Sunrise 5:12am
  • ISB: Fajr 3:40am Sunrise 5:14am

اہم کیسز کی سماعت کرنیوالے ججز کی تنخواہیں ٹربیونل ممبران سے کم

شائع November 26, 2016

اسلام آباد: خصوصی عدالتوں میں ہائی پروفائل کیسز کی سماعت کرنے والے ججز کی تنخواہیں ٹربیونل میں کام کرنے والے ممبرز اور روز مرہ کے کیسز سننے والے ججز سے کم ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

اس وقت خصوصی عدالتوں کے ججز کئی ہائی پروفائل کیسز کی سماعت کر رہے ہیں جن میں ممبئی حملہ کیس، بے نظیر بھٹو قتل کیس، سابق صدر آصف علی زرداری کے اثاثہ جات کیس، ماڈل ایان علی کے خلاف منی لانڈرنگ، ایفی ڈرین کیس، سیاستدانوں کے کرپشن کیسز اور بدنام زمانہ دہشت گردوں کے کیسز بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب ٹربیونلز کیسز کی محدود تعداد کو ڈیل کرتے ہیں۔

ججز کی تنخواہوں میں اس فرق کا انکشاف قومی اسمبلی میں وزارت قانون و انصاف کی جانب سے جمع کرائے تحریری جواب میں ہوا۔

رکن قومی اسمبلی میر اعجاز جاکھرانی نے ایوان میں اس حوالے سے سوال اٹھاتے ہوئے خصوصی عدالتوں اور ٹربیونلز میں ججز کی تنخواہوں کی تفصیلات پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

وزارت قانون و انصاف کے مطابق انسداد دہشت گردی کی عدالتوں (اے ٹی سی)، احتساب عدالت، کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹینس کورٹ (سی این ایس) بینکنگ کورٹ، ایف آئی اے کی خصوصی عدالت، کسٹم اینڈ ٹیکسیشن اور انسداد اسمگلنگ کی عدالتوں کے ججز کی تنخواہیں ماہانہ 2 لاکھ سے کچھ زائد ہے۔

دوسری جانب ریونیو، کسٹم ایپلیٹ ٹربیونل اور انٹیلیکچوئل پراپرٹی ٹربیونل کے ممبران کو ماہانہ 3 لاکھ سے زائد تنخواہ ادا کی جاتی ہے، جبکہ انہیں بنیادی تنخواہ اور دیگر الاؤنسز کے علاوہ مونیٹائزیشن الاؤنس کی مد میں بھی 77 ہزار 430 روپے ماہانہ ادا کیے جاتے ہیں۔

اگرچہ فیڈرل سروسز ٹربیونل (ایف ایس ٹی) کے ممبران، جو سرکاری ملازمین کے سروسز سے متعلق معاملات کو ڈیل کرتے ہیں، کی تنخواہ اور دیگر ماہانہ فوائد خصوصی عدالتوں کے ججز کے تقریباً برابر ہیں، لیکن ایف ایس ٹی کے چیئرمین کو ماہانہ 10 لاکھ روپے بطور تنخواہ ادا کیے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ خصوصی عدالت کے لیے جج مقرر ہونے کا، ٹربیونل کے جج کے مقابلے میں معیار بھی اونچا ہے۔

خصوصی عدالتوں میں جیسے کہ اے ٹی سی، سی این ایس، ایف آئی اے، بینکنگ اور دیگر عدالتوں میں وفاقی حکومت حاضر سروس سیشن جج کو بطور پریزائیڈنگ افسر مقرر کرتی ہے اور یہ عمل بھی متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی رضا مندی کے بعد انجام پاتا ہے۔

دوسری جانب حکومت ٹربیونل میں کسی کو بھی مقرر کرسکتی ہے، ترجیحاً ان کو جن کا بیک گراؤنڈ قانون سے ہو اور اس حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اکثر یہ تقرریاں سیاسی وابستگیوں کے باعث سے ہوتی ہے۔

ایک حاضر سروس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج، جو انسداد دہشت گردی عدالت میں خصوصی جج کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں، کا کہنا تھا کہ پسندیدہ وکلا اور ریٹائرڈ ججز کے علاوہ حکومت کسی کو بھی ٹربیونل کا پریزائیدنگ افسر مقرر کر سکتی ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ سپریم کورٹ نے حال ہی میں وفاقی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ ٹربیونل میں ممبران کی تقرری متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے اتفاق رائے سے کی جائے۔


یہ خبر 26 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 6 مئی 2025
کارٹون : 4 مئی 2025