• KHI: Fajr 4:30am Sunrise 5:52am
  • LHR: Fajr 3:42am Sunrise 5:12am
  • ISB: Fajr 3:40am Sunrise 5:14am
  • KHI: Fajr 4:30am Sunrise 5:52am
  • LHR: Fajr 3:42am Sunrise 5:12am
  • ISB: Fajr 3:40am Sunrise 5:14am

درآمدی ڈیوٹیز میں رعایت:حکومت کو 5.8 ارب کا نقصان

شائع November 30, 2016

اسلام آباد: درآمدی ڈیوٹیز میں رعایات، چھوٹ اور قانونی ریگولیٹری اتھارٹی آرڈرز (ایس آر اوز) کے تحت ٹیکس کی شرح صفر کرنے کے نوٹی فکیشن کی وجہ سے مالی سال 14-2013 کے دوران قومی خزانے کو 5 ارب 80 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔

یہ انکشاف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کو جمع کرائی آڈٹ رپورٹ میں ہوا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ مطلوبہ شرائط پوری کیے بغیر خاص ایس آر اوز کے تحت دس ماڈل کسٹم کلیکٹوریٹز (ایم سی سیز) کے ذریعے مختلف پارٹیوں کو چھوٹ کے فائدے کو توسیع، ڈیوٹیز اور ٹیکسز میں رعایات دی گئیں، جس سے 5 ارب 80 کروڑ روپے کا ریونیو وصول نہیں ہو پایا۔‘

تاہم چھوٹ دیئے جانے کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے ایف بی آر کے چیئرمین نثار محمد خان کا کہنا تھا کہ اس میں دفاع کے شعبے سے متعلق درآمد کا بڑا حصہ شامل ہے۔

انہوں نے کہا ’سیکیورٹی وجوہات کے باعث نہ ہی دفاعی فورسز نے اپنی درآمد سے متعلق کوئی تفصیلات جاری کیں اور نہ ہی کسٹم حکام نے فورسز سے متعلق درآمدی کھیپ کے آئیٹمز کو چیک کیا، جس کے باعث ایف بی آر ڈیفنس امپورٹ پر ٹیکس کی صرف خاص شرح چارج کرسکتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’باہمی افہام و تفہیم کے نظام کے تحت دفاعی درآمد پر ٹیکس کی یک مشت رقم عائد کی جاتی ہے۔‘

تاہم نثار محمد خان نے کہا کہ ’ایف بی آر کی جانب سے ایس آر اوز کے اجرا کی پالیسی ختم ہونے کے بعد بورڈ کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اس طرح کی رعایات کی مزید پیشکش کرسکے۔‘

دوسری جانب آڈٹ رپورٹ کے حکام نے ایف بی آر کے موقف کو غیر واضح قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایس آر اوز کے تحت ایف بی آر نجی پارٹیوں کو میزیں، کرسیاں اور مقامی طور پر تیار کیے جانے والی دیگر اشیا پر ٹیکس کی چھوٹ دیتا رہا ہے۔

حکومتی پالیسی کے مطابق ایف بی آر ایسی اشیا کی درآمد پر ٹیکس کی کوئی چھوٹ نہیں دے سکتا جو مقامی طور پر تیار کی جاتی ہوں، کیونکہ اس سے مقامی مینوفیکچررز کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے رکن ڈاکٹر عارف علوی نے ایف بی آر سے مطالبہ کیا کہ وہ قومی خزانے کو 5 ارب 80 کروڑ روپے ہونے والے نقصان کے حوالے سے اپنی پوزیشن کی وضاحت کرے، ورنہ ریونیو بورڈ کی شفافیت پر شکوک و شبہات پیدا ہوں گے۔

تاہم ایف بی آر چیئرمین نے دعویٰ کیا کہ آڈٹ حکام نے رعایات کی رقم کے حوالے سے مبالغہ آرائی سے کام لیا، کیونکہ ایف بی آر کے پاس ان چھوٹ کا جواز پیش کرنے کے لیے ریکارڈ میں کافی مواد موجود ہے۔

اس موقع پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین سید خورشید شاہ نے آڈٹ حکام اور چیئرمین ایف بی آر کو ہدایت کی کہ وہ ڈیپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی (ڈی اے سی) کے اجلاس میں رپورٹ کے حوالے سے ہم آہنگی پیدا کریں اور دو ہفتے بعد اس حوالے سے رپورٹ پیش کریں۔

پی اے سی کے اجلاس میں 11 ایم سی سیز اور ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کراچی کی جانب سے واجب الادا 7 ارب 60 کروڑ روپے وصول نہ ہونے کے حوالے سے بھی معاملہ اٹھایا گیا۔

کمیٹی کے سامنے چیئرمین ایف بی آر نے وصولیوں سے متعلق کیسز لڑنے کے لیے انتہائی پیشہ ورانہ وکلا کی خدمات حاصل کرنے کے حوالے سے اپنی بے بسی ظاہر کی۔

انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ قانونی چارہ جوئی کی وجہ سے ایف بی آر نے تقریباً 400 ارب روپے پھنسے ہوئے ہیں، ادارہ 10 لاکھ تک فیس لینے والے وکیل کی خدامت حاصل کرسکتا ہے اور اگر وکیل زیادہ فیس کا مطالبہ کرے تو اس کے لیے وزارت قانون سے منظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔

آڈیٹر جنرل پاکستان رانا اسد امین نے کمیٹی چیئرمین کو بتایا کہ جب کمیٹی میں زیر التوا کیسز کا معاملہ زیر بحث آئے گا اس وقت اس مسئلے کو اٹھایا جاسکتا ہے۔


یہ خبر 30 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 7 مئی 2025
کارٹون : 6 مئی 2025