فوجی عدالتوں کی میعاد ایک ماہ بعد ختم
اسلام آباد: فوجی عدالتوں کو دیئے گئے خصوصی اختیارات آئندہ ماہ 2 جنوری کو ختم ہور رہے ہیں، جب کہ وفاقی حکومت فوجی عدالتوں کے خصوصی اختیارات میں اضافے کے لیے آئین میں ترمیم کرنے کی خواہش مند نہیں ہے۔
گزشتہ برس 3 جنوری کو پارلیمنٹ نے 21 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے کر فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں توسیع کرتے ہوئے دہشت گردوں کی فوجی عدالتوں میں سماعت کی منظوری دی تھی،جب کہ پہلے فوجی عدالتوں کو صرف فوجی اہلکاروں کے جرائم کی پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) 1952 کے تحت سماعت کا اختیار تھا۔
وزیر مملکت برائے امور داخلہ بلیغ الرحمٰن کے مطابق حالات کی بہتری کے بعد قانون سازی کی ضرورت نہیں رہی۔
یہ بھی پڑھیں: 21ویں ترمیم اورفوجی عدالتیں: درخواستیں سماعت کیلئے منظور
پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم کرکے فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں اضافہ کیا گیا تھا ،جس کے تحت فوجی عدالتوں کو دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ روابط، مذہب کا نام استعمال کرکے جرائم، پاکستان کے خلاف لڑنے اور سیکیورٹی اہلکاروں پر حملے کرنے والوں کے خلاف سماعت کا اختیار مل گیا تھا۔
ترمیم کے بعد فوجی عدالتوں کو اغوا برائے تاوان میں ملوث مجرموں، ہتھیاروں کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں،خود کش جیکٹ اورگاڑیاں رکھنے اور بنانے والوں، دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرنے یا بیرون ملک سے دہشت گردی کے لیے معاونت حاصل کرنے والوں سمیت بیرون ملک اقلیتوں اور ملک کے لیے دہشت گردی یا عدم تحفظ جیسے حالات پیدا کرنے والوں کے خلاف بھی سماعت کا اختیارمل گیاتھا۔
پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت ایسے سویلین شخص کو بھی کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو فوجی تنصیبات یا فوج میں عارضی ملازمت کے دوران کسی کو بہکانے یا کسی کے بہکاوے میں ملوث پایا گیا۔
انسداد دہشت گردی سے متعلق حکومت کے ایک اور قانون پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ(پوپا) کی 2 سالہ مدت بھی رواں برس جولائی میں ختم ہوگئی تھی،جس کے لیے دوبارہ قانون سازی کے لیے حکومت نے سیاسی پارٹیوں کی اعلیٰ سطحی ٹیم تشکیل دے رکھی ہے۔
مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں کا قیام:آئینی ترمیمی بل اسمبلی میں پیش
فوجی عدالتوں کے اختیارات میں توسیع کی ترمیم بھی 2 سال قبل منظور کی گئی تھی اور اس کی مدت بھی آئندہ ماہ ختم ہو رہی ہے،مگر وزارت قانون نے تاحال اس کی مدت بڑھانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں۔
محکمہ قانون کے ایک اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ وزارت قانون ترمیم سے متعلق محکمہ داخلہ کے مسودی کی تیاری کے انتظار میں ہے، جب کہ محکمہ داخلہ نیشنل ایکشن پلان( نیپ) کے تحت فوجی عدالتوں کو دیے گئے اختیارات اور ہشت گردی میں بہتری کے حالات کا جائزہ لے رہا ہے۔
اہلکار کے مطابق محکمہ داخلہ نے فوجی عدالتوں کی مدت بڑھانے سے متعلق وزارت قانون سے مشورہ کرلیا ہے، محکمہ داخلہ کے مطابق اگر وہ فوجی عدالتوں کی مدت بڑھانے کے خواہاں ہونگے تو تحریری طور پر وزارت قانون کو خط لکھیں گے۔
وزارت قانون کے اہلکار کے مطابق محکمہ داخلہ کی تحریری درخواست ملنے کے بعد وزارت قانون بل کی تیاری پر عمل شروع کرتے ہوئے بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔
سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ حکومت سیاسی پارٹیوں کی حمایت کے بغیر فوجی عدالتوں کی مدت نہیں بڑھا سکتی۔
یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالت سے سزا،سپریم کورٹ میں پہلی اپیل دائر
پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) کے سینیٹر سعید غنی کے مطابق 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کو دیئے گئے اختیارات پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کے بغیر نہیں بڑھائے جا سکتے، جب کہ پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) یہ اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔
سعید غنی کے مطابق حکومت نے فوجی عدالتوں کی مدت بڑھانے کے لیے پی پی پی سے رابطہ نہیں کیا، جب کہ حکومت فوجی عدالتوں کی مدت بڑھانے کے لیے تیار نظر نہیں آ رہی، گزشتہ بار بھی ان کی پارٹی اس بل پر حکومت کی حمایت کرنے پر تذبذب کا شکار تھی مگرسانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور( اے پی ایس) کے پیش نظر حمایت کرلی، مگر اب حمایت کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے ترجمان فواد چوہدری کے مطابق ان کی پارٹی آئندہ اجلاس میں فوجی عدالتوں کی مدت کے معاملے پر بحث کرے گی۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان پر مؤثر طریقے سے عمل درآمد کرانے میں ناکام ہوچکی ہے، نیپ کی نظرداری پارلیمینٹ کی کمیٹی برائے داخلہ کے تحت کی جائے ،جب کہ انہوں نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کی مدت بڑھانے کے لیے بھی ایک پینل تشکیل دیا جائے۔
ذرائع محکمہ داخلہ کے مطابق فوجی عدالتوں کی مدت بڑھانے سے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل وزارت داخلہ فوجی قیادت کی طرف دیکھ رہی ہے۔
مزید پڑھیں: سات ہزار قیدی سزائے موت کے منتظر
دوسری جانب فوجی عدالتوں کی مدت بڑھانے سے متعلق مؤقف جاننے کے لیے جب فوجی ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کوئی بھی مؤقف دینے سے معذرت کرلی۔
فوجی ذرائع کے مطابق حکومت دو سال قبل بھی فوجی عدالتوں کو اختیارات دینے کے لیے راضی نہیں تھی،مگر اے پی ایس سانحے نے حکومت کو اختیارات دینے پر مجبور کردیا، حکومت نے فوجی عدالتوں کو اختیار دینے والی ترمیم غروب آفتاب میں کی اورحکومت نے قانون کی مدت ختم ہونے سے قبل مجرمانہ انصاف کے نظام کو درست نہیں کیا ۔
وزیر مملکت بلیغ الرحمٰن نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امن و امان کی صورتحال کئی گنا بہتر ہوچکی ہے، اب فوجی عدالتوں کے اختیارات میں اضافے کی ضرورت نہیں رہی۔
وزیر مملکت کے مطابق دسمبر 2014 میں صورتحال مختلف تھی، جس وجہ سے پی ایم ایل این کو سیاسی پارٹیوں کی حمایت لینے میں مشکلات نہیں ہوئیں لیکن اب حکومت کے لیے حمایت حاصل کرنا آسان نہیں ہے، بلیغ الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ان کے خیال کے مطابق حالات کنٹرول میں ہیں، اس لیے فوجی عدالتوں کی مدت بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ رپورٹ 4 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی